لیکچر: شیخ المشائخ حضرت صوفی محمّد افضل نقشبندی
گناہ کبیرہ ہو یا صغیرہ، معمولی ہو یا غیر معمولی، گناہ گناہ ہے اور اس کے اثرات تکالیف لاتے ہیں. یہ ذھن میں رکھ لیں کہ گناہ ایک ایسا پہلو ہے جو اس دنیا سے لیکر جہنم تک مصیبتیں ہی مصیبتیں لاتا ہے، چاہے یہ دنیاوی زندگی ہے چاہے قبر کی زندگی ہے، ساری مصیبتیں گناہ کی وجہ سے آتی ہیں. چاہے میدان محشر ہو، ساری ذلتیں گناہ کی وجہ سے ہیں. چاہے جہنم ہو، ساری سزائیں یا Penalties گناہ کی وجہ سے ہیں. دنیا میں کوئی بے سکون ہے، رسوا ہو رہا ہے، کوئی اور ذمہ دار نہیں ہے، خود اسکا وجود ذمہ دار ہے.
بد اعمالیوں کی وجہ سے انسان مختلف پریشانیوں میں سے گزر رہا ہے. یاد رکھیں گناہ چھوٹا ہو یا بڑا، تباہی لے کر آتا ہے. آج یہ سوسائٹی ایسی ہو گئی ہے کہ لوگ مذاق میں جھوٹ بولتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں تومذاق کر رہا تھا آپ سیریس ہو گۓ، یہ بھی جھوٹ ہے. وعدہ خلافی کر رہے ہیں کہ آپ کے ساتھ کھانا اکٹھے کھائیں گے لیکن آئے ہی نہیں اور عذر پیش کر دیا کہ مجھے کوئی کام پڑ گیا تھا. وعدہ خلافی شخصیت کو ہلاکت کی طرف لے جاتی ہے. قول اور فعل ایک ہونے چاہئیں. جس نبی ﷺ کے ہم پیروکار ہیں، وہ قول و فعل میں ایک تھے. ایک دفعہ ایک شخص نے آپ ﷺ سے عرض کی کہ میں ابھی آتا ہوں لیکن وہ شخص اپنی مصروفیت کی وجہ سے واپس آنا بھول گیا، لیکن آپ ﷺ وہاں تین دن تک وہیں کھڑے رہے. آپ ﷺ سے زیادہ کون مصروف تھا اور آپ ﷺ سے زیادہ کس پر ذمہ داریاں تھیں. لیکن الله کے حبیب ﷺ دنیا کے لیے ایک ماڈل تھے. جو کہتے تھے وہ کرتے تھے اور جو کرتے تھے وہ کہتے تھے.
لیکن آج کل کی سوسائٹی میں کہا کچھ جا رہا ہے اور کیا کچھ جا رہا ہے. یہ جو کچھ بھی مصیبتیں ہیں، یہ گناہوں کے ہی سبب ہیں. ہر شخص اپنے گناہوں کی بدولت پریشان ہیں لیکن ملبہ دوسروں پر ڈال رہا ہے. ایک اور پہلو جس کو سمجھنا ضروری ہے، جس کا ازالہ ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ انسان سوچتا ہے کہ گناہ کی سزا مرنے کے بعد ملے گی، ابھی تو بڑا وقت پڑا ہے. مرنے کے بعد حساب کتاب ہوگا پھر سزا ملے گی، یہ Concept بالکل غلط ہے. اگر زہر کھانے سے اسکا اثر جلد شروع نہ بھی ہو تو کچھ دیر بعد ضرور شروع ہو جاتا ہے اور جان پر ہلاکت آ جاتی ہے. اسی طرح اگر کوئی آدمی گناہ کرتا ہے، خواہ نماز ترک کی یا والدین کی بے عزتی کی، خواہ بچے پر بلاوجہ جبر کیا یا بیوی کی بے عزتی کی، اس کو due respect نہ دی، خواہ پڑوسی پر رعب اور دھونس جمانہ شروع کردیا، بزنس میں فراڈ شروع کر دیا یا نوکری میں جھوٹ بولنا شروع کر دیا کہ میری حاضری لگا دینا، یہ سب گناہ ہیں اور کچھ دیر بعد اس کے اثرات مرتب ہونا شروع ہو جاتے ہیں.
الله کے حبیب حضرت محمّد ﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی شخص گناہ کرتا ہے تو اسکے دل پر ایک سیاہ دھبہ لگ جاتا ہے. گویا ادھر اس نے زیادتی کی، ادھر دل کی سکرین پر سیاہ دھبہ لگ گیا. لوگ کس قیامت کے انتظار میں ہیں. یہ تو دنیا کے اندر ہی شروع ہو گئی. کیونکہ دل کے اندر اندھیرا ہو جاتا ہے تو ایمان کی لوڈ شیڈنگ شروع ہو جاتی ہے. انسان کی عقل ماری جاتی ہے، سوچیں مفلوج .ہو جاتی ہیں اور منفی ہو جاتی ہیں. سارا کردار Negative ہو جاتا ہے. کیونکہ انسان روشنی میں ہی چل سکتا ہے. جب ظاہری آنکھیں تاریک ہو جاتی ہیں، تو انسان ظاہری طور پر اندھا ہو جاتا ہے. ایسا انسان کبھی درخت سے ٹکراتا ہے کبھی گھڑے میں گرتا ہے. اسی طرح جب آدمی کے قلب کے اندر ایمان کی شمع بجھ جاتی ہے تو قلب میں اندھیرا چھا جاتا ہے. پھر کبھی انسان زنا کی طرف بھاگتا ہے، کبھی شرابی سے ٹکراتا ہے، کبھی فاسق و فاجر کے زمرے میں آ کر وہی کام شروع کر دیتا ہے. کبھی اسمگلر بن جاتا ہے. دھوکے باز یا Cheater بن جاتا ہے. ابلیسی قوتیں اس کے ارد گرد ہوتی ہیں اور وہ اسے مزید آگے بڑھاتی ہیں.
پہلے میں نے یہ concept clear کیا کہ گناہ کی سزا صرف آخرت میں نہیں ملتی بلکہ اس کی تین قسطیں ہیں، پہلی قسط اس دنیا میں، دوسری قبر میں، جو اس دنیا سے زیادہ سخت ہوگی اور تیسری قسط آخرت میں ملے گی. یہ معاملہ غور طلب ہے کہ مسلم سوسائٹی کی پریشانیوں، تکالیف، بے سکونی، معیشت کی تباہی، اور اعمال و کردار کی تباہی کی وجوہات کیا ہیں. اس کی طرف سے انسان اندھا ہے. اصل وجہ یہ ہے کہ یہ خدا کا نا فرمان ہے.
گناہ کا پہلا اثر یہ ہے کہ ہدایت کا نور ختم ہو جاتا ہے. جب قلب پر سیاہ پردہ پڑ جاتا ہے، گناہ کا حجاب آجاتا ہے، دل کا گیٹ بند ہو جاتا ہے اور نور مدھم پڑ جاتا ہے. یہاں علم کا نور کام آتا ہے. علم کے دو حصے ہیں، ایک ظاہری اور ایک باطنی.
جو مدرسوں میں پڑھایا جاتا ہے، علم شریعت اور علم دین. یہ ہدایت نہیں بلکہ knowledge (نالج) ہے. اگر ہدایت ہوتا تو سارے فارغ التحصیل ہدایت پر ہوتے. پڑھنے والے بھی اور پڑھانے والے بھی. یہ صرف علم ہے. یہ جاننا ہے. علم حدیث پڑھا، کانوں کے ذریعے دل تک گیا، لیکن دل کا گیت بند تھا. یہ ہدایت بن کر دل میں نہیں گیا بلکہ واپس پلٹ آیا. تقرر سنی، قرآن کی تلاوت کی گئی، کیا وجہ ہے کہ اس کا ہمارے قلوب پر اثر نہیں ہے. کیونکہ ہمارے گناہوں کی وجہ سے ہمارے قلوب کے دروازے بند ہیں. لہٰذا وہ تقرر، وہ احادیث جو کہ ہم مدارس میں، مساجد میں سنتے ہیں، اسکا دل پر کوئی اثر نہیں ہوتا.
وہ نور ہدایت جوعلم کے اندر تھا، دل کا دروازہ بند ہونے کی وجہ سے نور ہدایت بن کر نہیں چمکا. لہٰذا دینی مدارس کے اکثرلوگ بھی نور ہدایت سے بے بہرہ ہیں اور انکی اکثریت اس وقت سوسائٹی میں فتنہ و فساد کا موجب ہے. فرقہ پرستی پھیلی ہوئی ہے. دین کے نام پر تشدد اختیار کیا جاتا ہے، وہ دین جس کی روح عفو درگزر تھی. وہ دین جو رحمتہ العالمینی سے مالا مال تھا، انتقام بن گیا، نفرت بن گیا، تشدد بن گیا، دوسروں دوسروں کو حقیر سمجھا گیا، یہ دین نہیں، ہدایت نہیں. یہ صرف الفاظ تھے. خوبصورت مساجد، well carpeted, بہترین مائک، خوبصورت تقاریر مگر بے اثر. امت مصطفیٰ ﷺ کی حالت کیسے بدلتی، کیونکہ سننے اور سنانے والے رات دن گناہوں میں مبتلا ہیں اور اس کی وجہ سے قلوب کے گیٹ بند ہیں. وہ گناہ حجاب بن گئے، سیاہی کا دھبہ بن گۓ. بے اثر الفاظ دل میں اترنے کی بجائے واپس پلٹ آئے. گویا گناہ کا پہلا نقصان یہ ہے کہ قلب پر پردہ آ جاتا ہے جو دل کے اندر ہدایت کا نور داخل نہیں ہونے دیتا.
یہی وجہ ہے کہ احادیث پڑھ کر سناؤ کوئی اثر نہیں، کسی کو قرآن کی آیتیں پڑھ کر سناؤ کوئی اثر نہیں، کسی بھی مجلس میں لے جاؤ، وہی کا وہی حال ہے. ایک رسم، ایک نمود ہے، ایک Show Business چل رہا ہے. کسی جلسے کے لیے مخیر حضرات انتظام کر رہے ہیں. سب ایک شو بن کر رہ گیا ہے، روح نہیں ہے. یہ گناہ کا پہلا نقصان ہے.
حضرت امام مالکؒ بیٹھے ہیں، حضرت امام شافعیؒ تشریف لاتے ہیں. اگرچہ فقہی اختلافات تھے مگر وہ آپس میں دوست ہوا کرتے تھے. ایک دوسرے کے لیے بغض، کینہ اور حقارت نہیں رکھتے تھے. بلکہ ان اختلافات کے باوجود ایک دوسرے سے محبت رکھا کرتے تھے. حضرت امام شافعیؒ نے گفتگو شروع کی. حضورﷺ کی کچھ احادث سنائیں، قرآن کی چند آیات سنائیں. انکی تشریح کی. انوار تجلیات، اسرار و رموز کی بارش ہو رہی تھی. حضرت امام مالکؒ فرمانے لگے کہ امام شافعیؒ میں حیران ہوں کہ علم کا، معرفت کا، روحانیت کا، اسرار و رموز کا یہ خزانہ آپ کا بحر خودی کیسے اگل رہا ہے. میں اس پر حیران ہی حیران ہوں. کیسے وارد ہو رہا ہے آپکے قلب پر، تازہ علوم، تازہ کیفیات، نئے نقطے کیسے آپ کی زبان سے گوہر بن کر نکل رہے ہیں. اس کی کیا وجہ ہے؟ انہوں نے جواب دیا، میرے بھائی مالکؒ، یہی سوال میں نے وقیع بن جراحؒ (ایک تابعی، تابعی اسے کہتے ہیں جس نے چشم ظاہر سے ایمان کی حالت میں تو حضورﷺ کو نہ دیکھا ہو لیکن کسی ایسے کو دیکھا ہوجس نے حالت ایمان میں حضورﷺ کو دیکھا ہو) سے پوچھا تھا. میں انکی خدمات میں بیٹھا تھا، اسرار و رموز انکی زبان سے نکل رہے تھے اور میں ایسے ہی حیران تھا جسے آپ ہیں تو میرے پوچھنے پر انہوں نے فرمایا، کے شافعی! میں گناہ سے بچتا ہوں. میں نے ہر وقت گناہ کر دروازہ اپنے اوپر بند رکھا ہے. صرف نیکی کا دروازہ کھلا ہے. یہ سارا نزول بارگاہ ایزدی سے ہوتا ہے.
یہی بات پہلے کی گئی تھی کہ دل کا دروازہ گناہ کی بدولت بند ہو جاتا ہے. فقط لمبی لمبی داڑھیاں رکھنے سے نہیں کھلتا، ہزار ہزار کی تسبیحات پکڑنے سے نہیں کھلے گا، اپنا محاسبہ کرو، شب و روز صغیرہ اور کبیرہ گناہوں سے بچو.دل کی تختی صاف ہوگی، دھبے نہیں ہونگے، سیاہی نہیں ہوگی تو نیکی کا نور روشنی بن کر چمکے گا اور جب روشنی بن کر چمکے گا تو انور و تجلیات نور بن کر برسیں گی اور حق تعالیٰ کی بارگاہ سے تازہ واردات شروع ہو جائیں گی.
گناہ کا دوسرا اثر یہ ہوتا ہے کہ عبادات کی لذت چھن جاتی ہے اور دل بے چین رہتا ہے. کوئی بھی گناہ کرو گے اس سے کیا ہوگا، گناہ کرتے رہو گے. اس سے دل کی لذت چھن جائے گی. کوئی خانہ کعبہ جائے یا مسجد نبوی ﷺ جائے، وہاں سے بھی جلدی راہ فرار اختیار کرے گا. سنتیں یا نوافل چھوڑ کر جلدی گھر یا ہاسٹل بھاگے گا تاکہ کھانا کھائے اور آرام کرے. دل عبادت کی لذت محسوس نہیں کرے گا. جس دل کے گیٹ گناہ کی وجہ سے بند ہوں اس سے عبادت کی لذت چھن جاتی ہے. یہ سزا اس دنیا میں ہی شروع ہو جاتی ہے. قیامت کا انتظار نہیں. دل بے چین ہے، مرض کوئی، علاج کوئی ہے. انسان ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے کہ نیند نہیں آتی، دل بے چین ہے، برے خیالات آتے ہیں.دماغ صحیح کام نہیں کرتا. ڈاکٹر نے لکھ دیا کہ یہ ڈپریشن ہے، نہیں، یہ تو گناہوں کی سزا ہے، یہ terminology تو ڈاکٹر نے نکالی ہے. گناہ کا علاج ڈاکٹر کے پاس نہیں ہے. وہ نیند آور دوا دے کر کچھ دیر کے لیے سلا تو دے گا، لیکن ہوش میں آ کر وہی کیفیت ہوگی. اسے نیند یا سکون کی گولی نہیں چاہئیے. بلکہ اس کو گولیاں کھانی چاہئیے تھیں ترک گناہ کی، اس کو انجکشن لگوانا چاہئیے تھا توبہ کا.
وہ بارگاہ الہی میں روتا، اپنے گناہوں کی لسٹ بناتا، خلوت و جلوت میں جو خلاف ورزیاں ہوئیں ان کو سامنے رکھتا، آنسوؤں سے وضو کرتا اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہد کرتا. پھر اسکے دل کی تختی دھل جاتی ہے. دل کا گیٹ کھل جاتا ہے. پھر حدیث بھی اس پر اثر کرتی ہے، قرآن بھی اثر کرتا ہے، مرشد کی بات بھی اثر کرتی ہے. ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں تھی. ڈاکٹر کو پتا ہی نہیں کہ وہ غلط diagnose کر رہا ہے. Core Issue گناہ ہے،بے سکونی نہیں، نیند کا نہ آنا نہیں، بلکہ اصل اسباب کچھ اور ہیں. کہیں نافرمانی ہو رہی ہے، کہیں جھوٹ بولا جا رہا ہے، کہیں نماز چھوٹ رہی ہے، کہیں حرام رزق آ رہا ہے، کہیں بیوی بچوں کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے. اس نے اندر کے سارے سسٹم کو ڈسٹرب کر دیا ہے. مجرم ڈاکٹر کے پاس جا رہے ہیں، جبکہ انھیں خدا کی بارگاہ میں جانا چاہئیے تھا. وہاں معافی مانگنی چاہئیے تھی.
قلب پر گناہ کا تیسرا اثر یہ ہوتا ہے کہ متقی اور پرہیزگار بندوں کے ساتھ اس کا مزاج نہیں ملتا. اگر اسکا دوست اسکو پکڑ کر کسی اچھی صحبت میں یا محفل میں لے جائے گا وہاں اسکا دل نہیں لگے گا. اگر رقص و سرور کی محفل ہو گی،شراب و کباب کی محفل ہوگی تو وہ ساری رات بیٹھا رہے گا. جس کے قلب پہ گناہ کے اثرات ہوتے ہیں، اسکا دل شیطانی محفلوں میں، شیطانی کاموں میں لذت محسوس کرتا ہے. وہ خدا کے دوستوں اور نیکی کی محفلوں میں جانے سے گھبراتا ہے. ایسا شخص بیمار ہے، پیروں کا قصور نہیں، اسکا مزاج متقی لوگوں کے ساتھ ٹیلی نہیں کرتا. جس جگہ سے مزاج ٹیلی نہ کرے وہاں سے بھاگتا ہے. اسکا مزاج شیطانی ہے. جبکہ خدا کے دوستوں کا مزاج رحمانی ہوتا ہے. گناہ کی وجہ سے اسکا دل راہ فرار اختیار کرے گا. ذکر الله سے، اولیا الله کی محفلوں سے گریز کرے گا. بہانہ سازی کرے گا کہ میں Busy تھا، مجھے ادھر جانا تھا، ادھر جانا تھا. الله کے دوستوں سے اسکا مزاج نہیں ملتا. یہ اس کی سزا ہے.
گناہ کی معصیت کی وجہ سے، وبال کی وجہ سے، وہ گستاخ اور بے ادب لوگوں کے ساتھ سکون حاصل کرتا ہے. خدا نے ان کو disqualify کر دیا کہ یہ میرے دوستوں کے پاس نہیں آ سکتے. ایسا بندہ یہ کہہ کر اپنے آپ کو مطمئن کرے گا کہ میں پیروں کو نہیں مانتا. جبکہ خدا یہ کہہ رہا ہے کہ یہ میرے دوست ہیں، ان کے پاس جاؤ. مزاج میں فرق آ جاتا ہے. دل راغب ہی نہیں ہوتا. یہ حجاب گناہ کی وجہ سے ہے.
یہ تین گناہ ہی کے قلب پر اثرات ہیں، یہ سب دنیا میں ہی شروع ہو جاتے ہیں . کسی قیامت کا انتظار نہیں ہوتا. قیامت میں تو سزا ملتی ہی ہے. نمازیں پڑھتے رہیں، بہت اچھا ہے، ذکر کرتے رہیں بہت اچھا ہے لیکن ذکر و عبادات سے جو نور پیدا ہوتا ہے، وہ ترک گناہ نہ کرنے کی وجہ سے دوبارہ تاریکی میں بدل جاتا ہے. اسلئے گناہ کی کھڑکی بند کر دو اورنیکی کا دروازہ کھول دو. جو علوم حق تعالیٰ کی بارگاہ سے نازل ہونگے، وہ کتابوں میں بھی نہیں ملیں گے. یہی سب سے بڑی ڈگری ہے، سب سے بڑی qualification ہے، تزکیہ نفس، تصفیہ قلب یا دل کی پاکیزگی. یہ سب سے بڑی qualification ہے. یہ اگر نہیں ہے، تو ساری ڈگریاں، سارے certificates، سارے فلسفے خواہ Ph.D عربی ہو، خواہ Ph.D اسلامیات ہو، سب بے معنی ہیں، اگر اسکا دل پاک نہیں ہوا تو. دل کی پاکیزگی مرد کامل کے ہاں سے ملتی ہے. شیخ کامل کی نگاہوں سے ملتی ہے. ترک گناہ کی گولیاں کھانے سے ملتی ہے. خدا ہمیں گناہوں کی آلودگی سے اور ان کے اثرات سے پیدا ہونے والی مصیبتوں سے بچائے. آمین، ثم آمین انک سمیع الدعا.
یہ بھی پڑھیں: ایمان اور گناہ کیا ہیں؟ اور گناہ کے چار نقصانات کونسے ہیں؟
Sufi Muhammad Afzal |
لیکن آج کل کی سوسائٹی میں کہا کچھ جا رہا ہے اور کیا کچھ جا رہا ہے. یہ جو کچھ بھی مصیبتیں ہیں، یہ گناہوں کے ہی سبب ہیں. ہر شخص اپنے گناہوں کی بدولت پریشان ہیں لیکن ملبہ دوسروں پر ڈال رہا ہے. ایک اور پہلو جس کو سمجھنا ضروری ہے، جس کا ازالہ ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ انسان سوچتا ہے کہ گناہ کی سزا مرنے کے بعد ملے گی، ابھی تو بڑا وقت پڑا ہے. مرنے کے بعد حساب کتاب ہوگا پھر سزا ملے گی، یہ Concept بالکل غلط ہے. اگر زہر کھانے سے اسکا اثر جلد شروع نہ بھی ہو تو کچھ دیر بعد ضرور شروع ہو جاتا ہے اور جان پر ہلاکت آ جاتی ہے. اسی طرح اگر کوئی آدمی گناہ کرتا ہے، خواہ نماز ترک کی یا والدین کی بے عزتی کی، خواہ بچے پر بلاوجہ جبر کیا یا بیوی کی بے عزتی کی، اس کو due respect نہ دی، خواہ پڑوسی پر رعب اور دھونس جمانہ شروع کردیا، بزنس میں فراڈ شروع کر دیا یا نوکری میں جھوٹ بولنا شروع کر دیا کہ میری حاضری لگا دینا، یہ سب گناہ ہیں اور کچھ دیر بعد اس کے اثرات مرتب ہونا شروع ہو جاتے ہیں.
الله کے حبیب حضرت محمّد ﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی شخص گناہ کرتا ہے تو اسکے دل پر ایک سیاہ دھبہ لگ جاتا ہے. گویا ادھر اس نے زیادتی کی، ادھر دل کی سکرین پر سیاہ دھبہ لگ گیا. لوگ کس قیامت کے انتظار میں ہیں. یہ تو دنیا کے اندر ہی شروع ہو گئی. کیونکہ دل کے اندر اندھیرا ہو جاتا ہے تو ایمان کی لوڈ شیڈنگ شروع ہو جاتی ہے. انسان کی عقل ماری جاتی ہے، سوچیں مفلوج .ہو جاتی ہیں اور منفی ہو جاتی ہیں. سارا کردار Negative ہو جاتا ہے. کیونکہ انسان روشنی میں ہی چل سکتا ہے. جب ظاہری آنکھیں تاریک ہو جاتی ہیں، تو انسان ظاہری طور پر اندھا ہو جاتا ہے. ایسا انسان کبھی درخت سے ٹکراتا ہے کبھی گھڑے میں گرتا ہے. اسی طرح جب آدمی کے قلب کے اندر ایمان کی شمع بجھ جاتی ہے تو قلب میں اندھیرا چھا جاتا ہے. پھر کبھی انسان زنا کی طرف بھاگتا ہے، کبھی شرابی سے ٹکراتا ہے، کبھی فاسق و فاجر کے زمرے میں آ کر وہی کام شروع کر دیتا ہے. کبھی اسمگلر بن جاتا ہے. دھوکے باز یا Cheater بن جاتا ہے. ابلیسی قوتیں اس کے ارد گرد ہوتی ہیں اور وہ اسے مزید آگے بڑھاتی ہیں.
پہلے میں نے یہ concept clear کیا کہ گناہ کی سزا صرف آخرت میں نہیں ملتی بلکہ اس کی تین قسطیں ہیں، پہلی قسط اس دنیا میں، دوسری قبر میں، جو اس دنیا سے زیادہ سخت ہوگی اور تیسری قسط آخرت میں ملے گی. یہ معاملہ غور طلب ہے کہ مسلم سوسائٹی کی پریشانیوں، تکالیف، بے سکونی، معیشت کی تباہی، اور اعمال و کردار کی تباہی کی وجوہات کیا ہیں. اس کی طرف سے انسان اندھا ہے. اصل وجہ یہ ہے کہ یہ خدا کا نا فرمان ہے.
١. گناہ کا پہلا اثر:
گناہ کا پہلا اثر یہ ہے کہ ہدایت کا نور ختم ہو جاتا ہے. جب قلب پر سیاہ پردہ پڑ جاتا ہے، گناہ کا حجاب آجاتا ہے، دل کا گیٹ بند ہو جاتا ہے اور نور مدھم پڑ جاتا ہے. یہاں علم کا نور کام آتا ہے. علم کے دو حصے ہیں، ایک ظاہری اور ایک باطنی.
جو مدرسوں میں پڑھایا جاتا ہے، علم شریعت اور علم دین. یہ ہدایت نہیں بلکہ knowledge (نالج) ہے. اگر ہدایت ہوتا تو سارے فارغ التحصیل ہدایت پر ہوتے. پڑھنے والے بھی اور پڑھانے والے بھی. یہ صرف علم ہے. یہ جاننا ہے. علم حدیث پڑھا، کانوں کے ذریعے دل تک گیا، لیکن دل کا گیت بند تھا. یہ ہدایت بن کر دل میں نہیں گیا بلکہ واپس پلٹ آیا. تقرر سنی، قرآن کی تلاوت کی گئی، کیا وجہ ہے کہ اس کا ہمارے قلوب پر اثر نہیں ہے. کیونکہ ہمارے گناہوں کی وجہ سے ہمارے قلوب کے دروازے بند ہیں. لہٰذا وہ تقرر، وہ احادیث جو کہ ہم مدارس میں، مساجد میں سنتے ہیں، اسکا دل پر کوئی اثر نہیں ہوتا.
وہ نور ہدایت جوعلم کے اندر تھا، دل کا دروازہ بند ہونے کی وجہ سے نور ہدایت بن کر نہیں چمکا. لہٰذا دینی مدارس کے اکثرلوگ بھی نور ہدایت سے بے بہرہ ہیں اور انکی اکثریت اس وقت سوسائٹی میں فتنہ و فساد کا موجب ہے. فرقہ پرستی پھیلی ہوئی ہے. دین کے نام پر تشدد اختیار کیا جاتا ہے، وہ دین جس کی روح عفو درگزر تھی. وہ دین جو رحمتہ العالمینی سے مالا مال تھا، انتقام بن گیا، نفرت بن گیا، تشدد بن گیا، دوسروں دوسروں کو حقیر سمجھا گیا، یہ دین نہیں، ہدایت نہیں. یہ صرف الفاظ تھے. خوبصورت مساجد، well carpeted, بہترین مائک، خوبصورت تقاریر مگر بے اثر. امت مصطفیٰ ﷺ کی حالت کیسے بدلتی، کیونکہ سننے اور سنانے والے رات دن گناہوں میں مبتلا ہیں اور اس کی وجہ سے قلوب کے گیٹ بند ہیں. وہ گناہ حجاب بن گئے، سیاہی کا دھبہ بن گۓ. بے اثر الفاظ دل میں اترنے کی بجائے واپس پلٹ آئے. گویا گناہ کا پہلا نقصان یہ ہے کہ قلب پر پردہ آ جاتا ہے جو دل کے اندر ہدایت کا نور داخل نہیں ہونے دیتا.
یہی وجہ ہے کہ احادیث پڑھ کر سناؤ کوئی اثر نہیں، کسی کو قرآن کی آیتیں پڑھ کر سناؤ کوئی اثر نہیں، کسی بھی مجلس میں لے جاؤ، وہی کا وہی حال ہے. ایک رسم، ایک نمود ہے، ایک Show Business چل رہا ہے. کسی جلسے کے لیے مخیر حضرات انتظام کر رہے ہیں. سب ایک شو بن کر رہ گیا ہے، روح نہیں ہے. یہ گناہ کا پہلا نقصان ہے.
حضرت امام مالکؒ بیٹھے ہیں، حضرت امام شافعیؒ تشریف لاتے ہیں. اگرچہ فقہی اختلافات تھے مگر وہ آپس میں دوست ہوا کرتے تھے. ایک دوسرے کے لیے بغض، کینہ اور حقارت نہیں رکھتے تھے. بلکہ ان اختلافات کے باوجود ایک دوسرے سے محبت رکھا کرتے تھے. حضرت امام شافعیؒ نے گفتگو شروع کی. حضورﷺ کی کچھ احادث سنائیں، قرآن کی چند آیات سنائیں. انکی تشریح کی. انوار تجلیات، اسرار و رموز کی بارش ہو رہی تھی. حضرت امام مالکؒ فرمانے لگے کہ امام شافعیؒ میں حیران ہوں کہ علم کا، معرفت کا، روحانیت کا، اسرار و رموز کا یہ خزانہ آپ کا بحر خودی کیسے اگل رہا ہے. میں اس پر حیران ہی حیران ہوں. کیسے وارد ہو رہا ہے آپکے قلب پر، تازہ علوم، تازہ کیفیات، نئے نقطے کیسے آپ کی زبان سے گوہر بن کر نکل رہے ہیں. اس کی کیا وجہ ہے؟ انہوں نے جواب دیا، میرے بھائی مالکؒ، یہی سوال میں نے وقیع بن جراحؒ (ایک تابعی، تابعی اسے کہتے ہیں جس نے چشم ظاہر سے ایمان کی حالت میں تو حضورﷺ کو نہ دیکھا ہو لیکن کسی ایسے کو دیکھا ہوجس نے حالت ایمان میں حضورﷺ کو دیکھا ہو) سے پوچھا تھا. میں انکی خدمات میں بیٹھا تھا، اسرار و رموز انکی زبان سے نکل رہے تھے اور میں ایسے ہی حیران تھا جسے آپ ہیں تو میرے پوچھنے پر انہوں نے فرمایا، کے شافعی! میں گناہ سے بچتا ہوں. میں نے ہر وقت گناہ کر دروازہ اپنے اوپر بند رکھا ہے. صرف نیکی کا دروازہ کھلا ہے. یہ سارا نزول بارگاہ ایزدی سے ہوتا ہے.
یہی بات پہلے کی گئی تھی کہ دل کا دروازہ گناہ کی بدولت بند ہو جاتا ہے. فقط لمبی لمبی داڑھیاں رکھنے سے نہیں کھلتا، ہزار ہزار کی تسبیحات پکڑنے سے نہیں کھلے گا، اپنا محاسبہ کرو، شب و روز صغیرہ اور کبیرہ گناہوں سے بچو.دل کی تختی صاف ہوگی، دھبے نہیں ہونگے، سیاہی نہیں ہوگی تو نیکی کا نور روشنی بن کر چمکے گا اور جب روشنی بن کر چمکے گا تو انور و تجلیات نور بن کر برسیں گی اور حق تعالیٰ کی بارگاہ سے تازہ واردات شروع ہو جائیں گی.
٢. گناہ کا دوسرا اثر
گناہ کا دوسرا اثر یہ ہوتا ہے کہ عبادات کی لذت چھن جاتی ہے اور دل بے چین رہتا ہے. کوئی بھی گناہ کرو گے اس سے کیا ہوگا، گناہ کرتے رہو گے. اس سے دل کی لذت چھن جائے گی. کوئی خانہ کعبہ جائے یا مسجد نبوی ﷺ جائے، وہاں سے بھی جلدی راہ فرار اختیار کرے گا. سنتیں یا نوافل چھوڑ کر جلدی گھر یا ہاسٹل بھاگے گا تاکہ کھانا کھائے اور آرام کرے. دل عبادت کی لذت محسوس نہیں کرے گا. جس دل کے گیٹ گناہ کی وجہ سے بند ہوں اس سے عبادت کی لذت چھن جاتی ہے. یہ سزا اس دنیا میں ہی شروع ہو جاتی ہے. قیامت کا انتظار نہیں. دل بے چین ہے، مرض کوئی، علاج کوئی ہے. انسان ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے کہ نیند نہیں آتی، دل بے چین ہے، برے خیالات آتے ہیں.دماغ صحیح کام نہیں کرتا. ڈاکٹر نے لکھ دیا کہ یہ ڈپریشن ہے، نہیں، یہ تو گناہوں کی سزا ہے، یہ terminology تو ڈاکٹر نے نکالی ہے. گناہ کا علاج ڈاکٹر کے پاس نہیں ہے. وہ نیند آور دوا دے کر کچھ دیر کے لیے سلا تو دے گا، لیکن ہوش میں آ کر وہی کیفیت ہوگی. اسے نیند یا سکون کی گولی نہیں چاہئیے. بلکہ اس کو گولیاں کھانی چاہئیے تھیں ترک گناہ کی، اس کو انجکشن لگوانا چاہئیے تھا توبہ کا.
وہ بارگاہ الہی میں روتا، اپنے گناہوں کی لسٹ بناتا، خلوت و جلوت میں جو خلاف ورزیاں ہوئیں ان کو سامنے رکھتا، آنسوؤں سے وضو کرتا اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہد کرتا. پھر اسکے دل کی تختی دھل جاتی ہے. دل کا گیٹ کھل جاتا ہے. پھر حدیث بھی اس پر اثر کرتی ہے، قرآن بھی اثر کرتا ہے، مرشد کی بات بھی اثر کرتی ہے. ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں تھی. ڈاکٹر کو پتا ہی نہیں کہ وہ غلط diagnose کر رہا ہے. Core Issue گناہ ہے،بے سکونی نہیں، نیند کا نہ آنا نہیں، بلکہ اصل اسباب کچھ اور ہیں. کہیں نافرمانی ہو رہی ہے، کہیں جھوٹ بولا جا رہا ہے، کہیں نماز چھوٹ رہی ہے، کہیں حرام رزق آ رہا ہے، کہیں بیوی بچوں کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے. اس نے اندر کے سارے سسٹم کو ڈسٹرب کر دیا ہے. مجرم ڈاکٹر کے پاس جا رہے ہیں، جبکہ انھیں خدا کی بارگاہ میں جانا چاہئیے تھا. وہاں معافی مانگنی چاہئیے تھی.
٣. گناہ کا تیسرا اثر
قلب پر گناہ کا تیسرا اثر یہ ہوتا ہے کہ متقی اور پرہیزگار بندوں کے ساتھ اس کا مزاج نہیں ملتا. اگر اسکا دوست اسکو پکڑ کر کسی اچھی صحبت میں یا محفل میں لے جائے گا وہاں اسکا دل نہیں لگے گا. اگر رقص و سرور کی محفل ہو گی،شراب و کباب کی محفل ہوگی تو وہ ساری رات بیٹھا رہے گا. جس کے قلب پہ گناہ کے اثرات ہوتے ہیں، اسکا دل شیطانی محفلوں میں، شیطانی کاموں میں لذت محسوس کرتا ہے. وہ خدا کے دوستوں اور نیکی کی محفلوں میں جانے سے گھبراتا ہے. ایسا شخص بیمار ہے، پیروں کا قصور نہیں، اسکا مزاج متقی لوگوں کے ساتھ ٹیلی نہیں کرتا. جس جگہ سے مزاج ٹیلی نہ کرے وہاں سے بھاگتا ہے. اسکا مزاج شیطانی ہے. جبکہ خدا کے دوستوں کا مزاج رحمانی ہوتا ہے. گناہ کی وجہ سے اسکا دل راہ فرار اختیار کرے گا. ذکر الله سے، اولیا الله کی محفلوں سے گریز کرے گا. بہانہ سازی کرے گا کہ میں Busy تھا، مجھے ادھر جانا تھا، ادھر جانا تھا. الله کے دوستوں سے اسکا مزاج نہیں ملتا. یہ اس کی سزا ہے.
گناہ کی معصیت کی وجہ سے، وبال کی وجہ سے، وہ گستاخ اور بے ادب لوگوں کے ساتھ سکون حاصل کرتا ہے. خدا نے ان کو disqualify کر دیا کہ یہ میرے دوستوں کے پاس نہیں آ سکتے. ایسا بندہ یہ کہہ کر اپنے آپ کو مطمئن کرے گا کہ میں پیروں کو نہیں مانتا. جبکہ خدا یہ کہہ رہا ہے کہ یہ میرے دوست ہیں، ان کے پاس جاؤ. مزاج میں فرق آ جاتا ہے. دل راغب ہی نہیں ہوتا. یہ حجاب گناہ کی وجہ سے ہے.
یہ تین گناہ ہی کے قلب پر اثرات ہیں، یہ سب دنیا میں ہی شروع ہو جاتے ہیں . کسی قیامت کا انتظار نہیں ہوتا. قیامت میں تو سزا ملتی ہی ہے. نمازیں پڑھتے رہیں، بہت اچھا ہے، ذکر کرتے رہیں بہت اچھا ہے لیکن ذکر و عبادات سے جو نور پیدا ہوتا ہے، وہ ترک گناہ نہ کرنے کی وجہ سے دوبارہ تاریکی میں بدل جاتا ہے. اسلئے گناہ کی کھڑکی بند کر دو اورنیکی کا دروازہ کھول دو. جو علوم حق تعالیٰ کی بارگاہ سے نازل ہونگے، وہ کتابوں میں بھی نہیں ملیں گے. یہی سب سے بڑی ڈگری ہے، سب سے بڑی qualification ہے، تزکیہ نفس، تصفیہ قلب یا دل کی پاکیزگی. یہ سب سے بڑی qualification ہے. یہ اگر نہیں ہے، تو ساری ڈگریاں، سارے certificates، سارے فلسفے خواہ Ph.D عربی ہو، خواہ Ph.D اسلامیات ہو، سب بے معنی ہیں، اگر اسکا دل پاک نہیں ہوا تو. دل کی پاکیزگی مرد کامل کے ہاں سے ملتی ہے. شیخ کامل کی نگاہوں سے ملتی ہے. ترک گناہ کی گولیاں کھانے سے ملتی ہے. خدا ہمیں گناہوں کی آلودگی سے اور ان کے اثرات سے پیدا ہونے والی مصیبتوں سے بچائے. آمین، ثم آمین انک سمیع الدعا.
وما علينا الا البلاغ المبين
یہ بھی پڑھیں: ایمان اور گناہ کیا ہیں؟ اور گناہ کے چار نقصانات کونسے ہیں؟