گناہ کے قلب پہ اثرات

0 comments

لیکچر:  شیخ المشائخ حضرت صوفی محمّد افضل نقشبندی

گناہ کبیرہ ہو یا صغیرہ، معمولی ہو یا غیر معمولی، گناہ گناہ  ہے اور اس کے اثرات تکالیف لاتے ہیں. یہ ذھن میں رکھ لیں کہ گناہ ایک ایسا پہلو ہے جو اس دنیا سے لیکر جہنم تک مصیبتیں ہی مصیبتیں لاتا ہے، چاہے یہ دنیاوی  زندگی ہے چاہے قبر کی زندگی ہے، ساری مصیبتیں گناہ کی وجہ سے آتی ہیں. چاہے میدان محشر ہو، ساری ذلتیں گناہ کی وجہ سے ہیں. چاہے جہنم ہو، ساری سزائیں یا Penalties گناہ کی وجہ سے ہیں. دنیا میں  کوئی بے سکون ہے، رسوا ہو رہا ہے، کوئی اور ذمہ دار نہیں ہے، خود اسکا وجود ذمہ دار ہے. 

بد اعمالیوں کی وجہ سے انسان مختلف پریشانیوں میں سے گزر رہا ہے. یاد رکھیں گناہ چھوٹا ہو یا بڑا، تباہی لے کر آتا ہے. آج یہ سوسائٹی ایسی ہو گئی ہے کہ لوگ مذاق میں جھوٹ بولتے ہیں اور کہتے  ہیں کہ میں تومذاق کر رہا تھا آپ سیریس ہو گۓ، یہ بھی جھوٹ ہے. وعدہ خلافی کر رہے ہیں کہ آپ کے ساتھ کھانا اکٹھے کھائیں گے لیکن آئے ہی نہیں اور عذر پیش کر دیا کہ مجھے کوئی کام پڑ گیا تھا. وعدہ خلافی شخصیت کو ہلاکت کی طرف لے جاتی ہے. قول اور فعل ایک ہونے چاہئیں. جس نبی ﷺ کے ہم پیروکار ہیں، وہ قول و فعل میں ایک  تھے. ایک دفعہ ایک شخص نے آپ ﷺ سے عرض کی کہ میں ابھی آتا ہوں لیکن وہ شخص اپنی مصروفیت کی وجہ سے واپس آنا بھول گیا، لیکن آپ ﷺ  وہاں تین دن تک وہیں کھڑے رہے. آپ ﷺ  سے زیادہ کون مصروف تھا اور آپ ﷺ  سے زیادہ کس پر ذمہ داریاں  تھیں. لیکن الله کے حبیب ﷺ  دنیا کے لیے ایک ماڈل تھے. جو کہتے تھے وہ کرتے تھے اور جو کرتے تھے وہ کہتے تھے.

Sufi Muhammad Afzal
Sufi Muhammad Afzal


 لیکن آج کل کی سوسائٹی میں کہا کچھ  جا رہا ہے اور کیا کچھ جا رہا ہے. یہ جو کچھ بھی مصیبتیں  ہیں، یہ گناہوں کے ہی سبب ہیں. ہر شخص اپنے گناہوں کی بدولت پریشان ہیں لیکن ملبہ دوسروں پر ڈال رہا ہے. ایک اور پہلو جس کو سمجھنا ضروری ہے، جس کا ازالہ  ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ انسان سوچتا ہے کہ گناہ کی سزا مرنے کے بعد ملے گی، ابھی تو بڑا وقت پڑا ہے. مرنے کے بعد حساب کتاب ہوگا پھر سزا  ملے گی، یہ Concept بالکل غلط ہے. اگر زہر کھانے سے اسکا اثر جلد شروع نہ بھی ہو تو کچھ دیر بعد ضرور شروع ہو جاتا ہے اور جان پر ہلاکت آ  جاتی ہے. اسی  طرح اگر کوئی آدمی گناہ کرتا ہے، خواہ نماز ترک کی یا والدین کی بے عزتی کی، خواہ بچے پر بلاوجہ جبر کیا یا بیوی کی بے عزتی کی،  اس کو due respect نہ  دی، خواہ پڑوسی پر رعب اور دھونس جمانہ شروع کردیا، بزنس میں فراڈ شروع کر دیا یا نوکری میں جھوٹ بولنا شروع کر دیا کہ میری حاضری لگا دینا،  یہ سب گناہ  ہیں اور کچھ دیر بعد اس کے اثرات مرتب ہونا شروع ہو جاتے ہیں.

الله کے حبیب حضرت محمّد ﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی شخص گناہ کرتا ہے تو اسکے دل پر ایک سیاہ دھبہ لگ جاتا ہے. گویا ادھر اس نے زیادتی کی، ادھر دل کی سکرین پر سیاہ دھبہ لگ گیا. لوگ کس قیامت کے انتظار میں ہیں. یہ تو دنیا کے اندر ہی شروع ہو گئی. کیونکہ دل کے اندر اندھیرا ہو جاتا ہے تو ایمان کی لوڈ شیڈنگ شروع ہو جاتی ہے. انسان کی عقل ماری جاتی ہے، سوچیں مفلوج .ہو جاتی ہیں اور منفی ہو جاتی ہیں. سارا کردار Negative ہو جاتا ہے. کیونکہ انسان روشنی میں ہی چل سکتا ہے. جب ظاہری آنکھیں تاریک ہو جاتی ہیں، تو انسان ظاہری طور پر اندھا ہو جاتا ہے. ایسا انسان کبھی درخت سے ٹکراتا ہے کبھی گھڑے میں گرتا ہے. اسی طرح جب آدمی کے قلب کے اندر ایمان کی شمع بجھ جاتی ہے تو قلب میں اندھیرا چھا جاتا ہے. پھر کبھی انسان زنا کی طرف بھاگتا ہے، کبھی شرابی سے ٹکراتا ہے، کبھی فاسق و فاجر کے زمرے میں آ کر وہی کام شروع کر دیتا ہے. کبھی اسمگلر بن جاتا ہے. دھوکے باز یا Cheater بن جاتا ہے. ابلیسی قوتیں اس کے ارد گرد ہوتی ہیں اور وہ اسے مزید آگے بڑھاتی ہیں.

پہلے میں نے یہ concept clear کیا کہ گناہ کی سزا صرف آخرت میں نہیں ملتی بلکہ اس کی تین قسطیں ہیں، پہلی قسط اس دنیا میں، دوسری قبر میں، جو اس دنیا سے زیادہ سخت ہوگی اور تیسری قسط آخرت میں ملے گی. یہ معاملہ غور طلب ہے کہ مسلم سوسائٹی کی پریشانیوں، تکالیف، بے سکونی، معیشت کی تباہی، اور اعمال و کردار کی تباہی کی وجوہات کیا ہیں. اس کی طرف سے انسان اندھا ہے. اصل وجہ یہ ہے کہ یہ خدا کا نا فرمان ہے.


١. گناہ کا پہلا اثر: 


گناہ کا پہلا اثر یہ ہے کہ ہدایت کا نور ختم ہو جاتا ہے. جب قلب پر سیاہ پردہ پڑ جاتا ہے، گناہ کا حجاب آجاتا ہے، دل کا گیٹ بند ہو جاتا ہے اور نور مدھم پڑ جاتا ہے. یہاں علم کا نور کام آتا ہے. علم کے دو حصے ہیں، ایک ظاہری اور ایک باطنی.

جو مدرسوں میں پڑھایا جاتا ہے، علم  شریعت اور علم دین. یہ ہدایت نہیں بلکہ knowledge (نالج) ہے. اگر ہدایت ہوتا تو سارے فارغ التحصیل ہدایت پر ہوتے. پڑھنے والے بھی اور پڑھانے والے بھی. یہ صرف علم ہے. یہ جاننا ہے. علم حدیث پڑھا، کانوں کے ذریعے دل تک گیا، لیکن دل کا گیت بند  تھا. یہ ہدایت بن کر دل میں نہیں گیا بلکہ واپس پلٹ  آیا. تقرر سنی، قرآن کی تلاوت کی گئی، کیا وجہ ہے کہ اس کا ہمارے قلوب پر اثر نہیں ہے. کیونکہ ہمارے گناہوں کی وجہ سے ہمارے قلوب کے دروازے بند ہیں. لہٰذا وہ تقرر، وہ احادیث جو کہ ہم مدارس میں، مساجد میں سنتے ہیں، اسکا دل پر کوئی اثر نہیں ہوتا.

وہ نور ہدایت جوعلم کے اندر تھا، دل کا دروازہ بند ہونے کی وجہ سے نور ہدایت بن کر نہیں چمکا. لہٰذا دینی مدارس کے اکثرلوگ بھی نور ہدایت سے بے بہرہ ہیں اور انکی اکثریت اس وقت سوسائٹی میں فتنہ و فساد کا موجب ہے. فرقہ پرستی پھیلی ہوئی ہے. دین کے نام پر تشدد اختیار کیا جاتا ہے، وہ دین جس کی روح عفو درگزر تھی. وہ دین جو رحمتہ العالمینی سے مالا مال تھا، انتقام بن گیا، نفرت بن گیا، تشدد بن گیا، دوسروں دوسروں کو حقیر سمجھا گیا، یہ دین نہیں، ہدایت نہیں. یہ صرف الفاظ تھے. خوبصورت مساجد، well carpeted, بہترین  مائک، خوبصورت تقاریر مگر بے اثر. امت مصطفیٰ ﷺ  کی حالت کیسے بدلتی، کیونکہ سننے اور سنانے والے رات دن  گناہوں میں مبتلا ہیں اور اس کی وجہ سے قلوب کے گیٹ بند ہیں. وہ گناہ حجاب بن گئے، سیاہی کا دھبہ بن گۓ. بے اثر الفاظ دل میں اترنے کی بجائے واپس پلٹ آئے. گویا گناہ کا پہلا نقصان یہ ہے کہ قلب پر پردہ آ  جاتا ہے جو دل کے اندر ہدایت کا نور داخل نہیں ہونے  دیتا.

یہی وجہ ہے کہ احادیث پڑھ کر سناؤ کوئی اثر نہیں، کسی کو قرآن کی آیتیں پڑھ کر سناؤ کوئی اثر نہیں، کسی بھی مجلس میں لے جاؤ، وہی کا وہی حال ہے. ایک رسم، ایک نمود ہے، ایک Show Business چل رہا ہے. کسی جلسے کے لیے مخیر حضرات انتظام کر رہے ہیں. سب ایک شو بن کر رہ گیا ہے، روح نہیں ہے. یہ گناہ کا پہلا نقصان ہے.

حضرت امام مالکؒ بیٹھے ہیں، حضرت امام شافعیؒ تشریف لاتے ہیں. اگرچہ فقہی اختلافات تھے مگر وہ آپس میں دوست ہوا کرتے تھے. ایک دوسرے کے لیے بغض، کینہ اور حقارت نہیں رکھتے تھے. بلکہ ان اختلافات کے باوجود ایک دوسرے سے محبت رکھا کرتے تھے. حضرت امام شافعیؒ نے گفتگو شروع کی. حضورﷺ کی کچھ احادث سنائیں، قرآن کی چند آیات سنائیں. انکی تشریح کی. انوار تجلیات، اسرار و رموز کی بارش ہو رہی تھی. حضرت امام مالکؒ فرمانے لگے کہ امام شافعیؒ میں حیران ہوں کہ علم کا، معرفت کا، روحانیت کا، اسرار و رموز کا یہ خزانہ آپ کا بحر خودی کیسے اگل رہا ہے. میں اس پر حیران ہی حیران ہوں. کیسے وارد ہو رہا ہے آپکے قلب  پر، تازہ علوم، تازہ کیفیات، نئے نقطے کیسے آپ کی زبان سے گوہر بن کر نکل رہے ہیں. اس کی کیا وجہ ہے؟ انہوں نے جواب  دیا، میرے بھائی مالکؒ، یہی سوال میں نے وقیع بن جراحؒ (ایک تابعی، تابعی اسے  کہتے ہیں جس نے چشم ظاہر سے ایمان کی حالت میں تو حضورﷺ کو نہ دیکھا ہو لیکن کسی ایسے کو دیکھا ہوجس نے حالت ایمان میں حضورﷺ کو دیکھا ہو) سے پوچھا تھا. میں انکی خدمات میں بیٹھا تھا، اسرار و رموز انکی زبان سے نکل رہے تھے اور میں ایسے ہی حیران تھا جسے آپ ہیں تو میرے پوچھنے  پر انہوں نے فرمایا، کے شافعی! میں گناہ سے بچتا ہوں. میں نے ہر وقت گناہ کر دروازہ اپنے اوپر بند رکھا ہے. صرف نیکی کا دروازہ کھلا ہے. یہ سارا نزول بارگاہ ایزدی سے ہوتا ہے.

یہی  بات پہلے کی گئی  تھی کہ دل کا دروازہ گناہ کی بدولت بند ہو جاتا ہے. فقط لمبی لمبی داڑھیاں رکھنے سے نہیں کھلتا، ہزار ہزار کی تسبیحات پکڑنے سے نہیں کھلے گا، اپنا محاسبہ کرو، شب و روز صغیرہ اور کبیرہ گناہوں سے  بچو.دل کی تختی صاف ہوگی، دھبے نہیں ہونگے، سیاہی نہیں ہوگی  تو نیکی کا نور روشنی بن کر چمکے گا اور جب روشنی بن کر چمکے گا تو انور و تجلیات نور بن کر برسیں گی اور حق تعالیٰ کی بارگاہ سے تازہ واردات شروع ہو جائیں گی.

٢. گناہ کا دوسرا اثر 


گناہ کا دوسرا اثر یہ ہوتا ہے کہ عبادات کی لذت چھن جاتی ہے اور دل بے چین رہتا ہے. کوئی بھی گناہ کرو گے اس سے کیا ہوگا، گناہ کرتے رہو گے. اس سے دل کی لذت چھن جائے گی. کوئی خانہ کعبہ جائے یا مسجد نبوی ﷺ جائے، وہاں سے بھی جلدی راہ فرار اختیار کرے گا. سنتیں یا نوافل چھوڑ کر جلدی گھر یا ہاسٹل بھاگے گا تاکہ کھانا کھائے اور آرام کرے. دل عبادت کی لذت محسوس نہیں کرے گا. جس دل کے گیٹ گناہ کی وجہ سے بند ہوں اس سے عبادت کی لذت چھن جاتی ہے. یہ سزا اس دنیا میں ہی شروع ہو جاتی ہے. قیامت کا انتظار نہیں. دل بے چین ہے، مرض کوئی، علاج کوئی ہے. انسان ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے کہ نیند نہیں  آتی، دل بے چین ہے، برے خیالات آتے  ہیں.دماغ صحیح کام نہیں کرتا. ڈاکٹر نے لکھ دیا کہ یہ ڈپریشن ہے، نہیں، یہ تو گناہوں کی سزا ہے، یہ  terminology  تو ڈاکٹر نے نکالی ہے. گناہ کا علاج ڈاکٹر کے پاس نہیں ہے. وہ نیند آور دوا دے کر کچھ دیر کے لیے سلا تو دے گا، لیکن ہوش میں آ کر وہی کیفیت  ہوگی. اسے نیند یا سکون کی گولی نہیں چاہئیے. بلکہ اس کو گولیاں کھانی چاہئیے تھیں ترک گناہ کی، اس کو انجکشن لگوانا چاہئیے  تھا توبہ کا.

وہ بارگاہ الہی میں روتا، اپنے گناہوں کی لسٹ بناتا، خلوت و جلوت میں جو خلاف ورزیاں ہوئیں ان کو سامنے  رکھتا، آنسوؤں سے وضو کرتا اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہد کرتا. پھر اسکے دل کی تختی دھل جاتی ہے. دل کا گیٹ کھل جاتا ہے. پھر حدیث بھی اس پر اثر کرتی ہے، قرآن بھی اثر کرتا ہے، مرشد کی بات بھی اثر کرتی ہے. ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں تھی. ڈاکٹر کو پتا ہی نہیں کہ وہ غلط diagnose کر رہا ہے. Core Issue گناہ ہے،بے  سکونی نہیں، نیند کا نہ آنا نہیں، بلکہ اصل اسباب کچھ اور  ہیں. کہیں نافرمانی  ہو رہی ہے، کہیں جھوٹ بولا جا رہا ہے، کہیں نماز چھوٹ رہی ہے، کہیں حرام  رزق آ رہا ہے، کہیں بیوی بچوں کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے. اس نے اندر کے سارے سسٹم کو ڈسٹرب کر دیا ہے. مجرم ڈاکٹر کے پاس جا رہے ہیں، جبکہ انھیں خدا کی بارگاہ میں جانا چاہئیے تھا. وہاں معافی مانگنی چاہئیے  تھی.

٣. گناہ کا تیسرا اثر 


قلب پر گناہ کا تیسرا اثر یہ ہوتا ہے کہ متقی اور پرہیزگار بندوں کے ساتھ اس کا مزاج نہیں ملتا. اگر اسکا دوست اسکو پکڑ کر کسی اچھی صحبت میں یا محفل میں لے جائے گا وہاں اسکا دل نہیں لگے گا. اگر رقص و سرور کی محفل ہو  گی،شراب و کباب کی محفل ہوگی تو وہ ساری رات بیٹھا رہے گا. جس کے قلب پہ گناہ کے اثرات ہوتے ہیں، اسکا دل شیطانی محفلوں میں، شیطانی کاموں میں لذت محسوس کرتا ہے. وہ خدا کے دوستوں اور نیکی کی محفلوں میں جانے سے گھبراتا ہے. ایسا شخص بیمار ہے، پیروں کا قصور نہیں، اسکا مزاج متقی لوگوں کے ساتھ ٹیلی نہیں کرتا. جس جگہ سے مزاج ٹیلی نہ کرے وہاں سے بھاگتا ہے. اسکا مزاج شیطانی ہے. جبکہ خدا کے دوستوں کا مزاج رحمانی ہوتا ہے. گناہ کی وجہ سے اسکا دل راہ فرار اختیار کرے گا. ذکر الله سے، اولیا الله کی محفلوں سے گریز کرے گا. بہانہ سازی کرے گا کہ میں Busy تھا، مجھے ادھر جانا تھا، ادھر جانا تھا. الله کے دوستوں سے اسکا مزاج نہیں ملتا. یہ اس کی  سزا ہے.

 گناہ کی معصیت کی وجہ سے، وبال کی وجہ سے، وہ گستاخ اور بے ادب لوگوں کے ساتھ سکون حاصل کرتا ہے. خدا نے ان کو disqualify کر دیا کہ یہ میرے دوستوں کے پاس نہیں آ  سکتے. ایسا بندہ یہ کہہ کر اپنے آپ کو مطمئن کرے گا کہ میں پیروں کو نہیں مانتا. جبکہ خدا یہ کہہ رہا ہے کہ یہ میرے دوست ہیں، ان کے پاس جاؤ. مزاج میں فرق آ جاتا ہے. دل راغب ہی نہیں ہوتا. یہ حجاب گناہ کی وجہ سے ہے.

یہ تین گناہ ہی کے قلب پر اثرات ہیں، یہ سب دنیا میں ہی شروع ہو جاتے ہیں . کسی قیامت کا انتظار نہیں ہوتا. قیامت میں تو سزا ملتی ہی ہے. نمازیں پڑھتے رہیں، بہت اچھا ہے، ذکر کرتے رہیں بہت اچھا ہے لیکن ذکر و عبادات سے جو نور پیدا ہوتا ہے، وہ ترک گناہ نہ کرنے کی وجہ سے دوبارہ تاریکی میں بدل جاتا ہے. اسلئے گناہ کی کھڑکی بند کر دو اورنیکی کا دروازہ کھول دو. جو علوم حق تعالیٰ کی بارگاہ سے نازل  ہونگے، وہ کتابوں میں بھی نہیں ملیں گے. یہی سب سے بڑی ڈگری ہے، سب سے بڑی qualification ہے، تزکیہ نفس، تصفیہ قلب یا دل کی پاکیزگی. یہ سب سے بڑی qualification ہے. یہ اگر نہیں ہے، تو ساری ڈگریاں، سارے certificates، سارے فلسفے خواہ Ph.D عربی ہو، خواہ Ph.D اسلامیات ہو، سب بے معنی ہیں، اگر اسکا دل پاک نہیں ہوا تو. دل کی پاکیزگی مرد کامل کے ہاں سے ملتی ہے. شیخ کامل کی نگاہوں سے ملتی ہے. ترک گناہ کی گولیاں کھانے سے ملتی ہے. خدا ہمیں گناہوں کی آلودگی سے اور ان کے اثرات سے پیدا ہونے والی مصیبتوں سے بچائے. آمین، ثم آمین انک سمیع الدعا.

وما علينا الا البلاغ المبين 


یہ بھی پڑھیں: ایمان اور گناہ کیا ہیں؟ اور گناہ کے چار نقصانات کونسے ہیں؟


Sufism and Tazkia Nafs
Sufism and Tazkia Nafs


Keywords: Allah, Prophet Muhammad PBUH, Islam, Tazkia Nafs, Sufism, Saints in Islam, Qalb. Spiritual, Naqshband Golden Chain, Effects of sins on heart

ایمان اور گناہ کیا ہیں؟ اور گناہ کے چار نقصانات کونسے ہیں؟

0 comments

لیکچر:  شیخ المشائخ حضرت صوفی محمّد افضل نقشبندی

ایمان کیا ہے؟ 

اقرار بللسان  و تصدیق با قلب. نہ صرف زبان سے اقرار کرنا بلکہ دل کی گہرائیوں سے ان چیزوں  ماننا، نہ صرف ماننا بلکہ ان کو سامنے رکھ کراپنے اعمال کواستوار کرنا. مثلاً الله تعالیٰ پر ایمان لانا. کیا ایمان لانا؟ یہ کہ اس کا کوئی شریک نہیں، وہی عبادت کے لائق ہے، وہ مجھے دیکھ رہا ہے، وہ میری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے اور میری حرکات و سکنات اس کے رو برو ہیں. آپ اندازہ کریں کہ کوئی آپ کو دیکھ رہا ہو، کوئی شخص لمحہ بہ لمحہ آپکی حرکات و سکنات کو ریکارڈ کر رہا ہواور پھر باز پرس بھی ہونی ہو تو کیا آپ کوئی غلط کام کریں گے؟ نہیں کریں گے.   

Sufi Muhammad Afzal
Sufi Muhammad Afzal


ہمارا رب ہمیں دیکھ رہا ہے، لمحہ بہ لمحہ کی رپورٹنگ ہو رہی ہے اور سب حق تعالیٰ کے Eye Radar میں  ہیں،  خلوت میں ہوں یا جلوت میں، گھر میں ہوں یا بیت الخلاء میں، محفل میں ہوں یا تنہائی میں، وہ ہمارے ظاہری اعمال بھی دیکھ رہا ہے  اور جو کچھ ہمارے قلب کے اندر کیفیات گزر رہی ہیں اور ذہن کے اندر خیالات آ رہے ہیں اس کو  تصرف بھی ہے. اور یہ سب کچھ ریکارڈ بھی ہو رہا ہے اور کتنا بڑا المیہ ہے کہ ہم پرواہ نہیں کر رہے. غیبت کر رہے ہیں، زبان سے دل آزاری کر رہے ہیں، کاروبار میں ہیرا پھیری کر رہے ہیں. اپنے دوستوں، رشتہ داروں کو دھوکہ دہ رہے ہیں. ہم ظاہری طور پر کچھ اور کرتے ہیں اور باطنی طور پر کچھ اور. ہم اپنے آپ کو بہت ہوشیار اور چالاک سمجھ رہے ہیں. کس کے آگے؟ جو ہمارے اعمال دیکھ بھی رہا ہے ریکارڈ بھی کر رہا ہے. ہماری ہر حالت کا حساب ہو رہا ہے.

آخرت پر ایمان کیا ہے؟ 

دل کی گہرائیوں سے ماننا کہ قیامت آئے گی، میری accountability  ہو گی، یہ accountability دنیا میں تو ہو رہی ہے، مرنے کے بعد بھی ہوگی، قبر سے سٹارٹ ہو جاۓ گی، نزع کے وقت سے اسٹارٹ ہو جاۓ گی. وہ شخص کہ جس کو اپنی بنیادی زندگی آخرت کو سامنے رکھ کر بسر کرنی چاہئیے تھی، اسکو پرواہ ہی نہیں، آخرت کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہی، تباہی مچائی جا رہی ہے بے خوفی سے، نڈر پن سے، آخرت کی جوابدہی کا ہم اقرار تو کرتے ہیں لیکن practically مظاہرہ نہیں کرتے اگر آخرت کو سامنے رکھ کر عملی زندگی کا مظاہرہ کرتے ہوتے تو اپنی زندگی کو درست کیا ہوتا. یہاں بھی ہم جھوٹ بولتے ہیں.

ایمان اور یقین جب مومن کے اندر develop ہو جاتے ہیں تو سارے اعمال درست ہو جاتے ہیں. خوف خدا ہوتا ہے، ڈر ہوتا ہے، اپنے رب کے حضور مومن اپنے آپ کو حاضر سمجھتا ہے. اپنے آپ کو رب کے سامنے جوابدہ سمجھتا ہے. چشم رسالت مآب ﷺ کے سامنے شرمندگی سے بچنا چاہتا ہے. لیکن ہم ایسا نہیں کر رہے. ہم کہتے تو ہیں کہ الله ہر جگہ موجود ہے، لیکن practically ہم اسکی نفی کرتے ہیں. یہاں سے ہمارا جھوٹ اسٹارٹ ہو جاتا ہے. 

گناہ کیا ہے؟ 

الله تعالیٰ اور اسکے رسول ﷺ کی نافرمانی، آپ ﷺ کی سنت کی خلاف ورزی، حق تعالیٰ نے جن چیزوں سے منع کیا ہے وہ کر رہے ہیں اور جن چیزوں کو کرنے کے لیے کہا ہے اسکو نہیں کر رہے، اسکو گناہ کہتے ہیں.

گناہ کے نقصانات کی کیا ہیں؟ 

یہ نہ سمجھو کہ کوئی نقصان نہیں ہو رہا، یہ نقصانات ہی تو ہیں کہ دل بنجر ہیں، ذھن اجڑے ہوۓ ہیں، جسم تباہ ہو چکے ہیں، یہ چلتی پھرتی لاشیں ہیں، یہ حیوان ہیں، نام کا اسلام ہے، کام کافرانہ ہیں، خیالات کافرانہ ہیں. یہ براۓ نام مسلمان ہیں، براۓ نام اسلام کے دعوے دار ہیں.

"گناہ کے نقصانات"

گناہ کے چار نقصانات ہیں:

١. گناہ کا پہلا نقصان: 

گناہ کا پہلا نقصان کیا ہے؟ یہ تو میں نے بتایا کہ گناہ الله تعالیٰ  اور رسالت مآب ﷺ کے احکامات کی خلاف ورزی ہے. جب ہم نافرمانی کرتے ہیں اپنے افسر کی، اپنے والدین کی ، تو اس سے کیا ہوتا ہے؟ کیا وہ خوش ہوتے ہیں؟ نہیں وہ ناراض ہوتے ہیں. اگر آپ کا کوئی ماتحت آپ کی نہ فرمانی کرے تو کیا آپ اس سے خوش ہونگے یا اس سے ناراض ہونگے؟ یقیناً آپ اس سے ناراض ہونگے. جب انعامات دینے کا وقت آئے گا تو سارے انعامات اور میڈلز اسکو دیں گے جو آپ کا فرمانبردار ہوگا. جسے زہر جسم کو تباہ کر دیتا ہے، جگر تباہ ہو جاتا ہے، خون کے ذریعے دل پرزہر کا اٹیک ہوتا ہے اور انسان کی موت واقعہ ہو جاتی ہے. اسی طرح جب انسان گناہ کرتا ہے تو اسکا زہر (روحانی) دل پر اٹیک کرتا ہے. اسکی روحانیت تباہ ہو جاتی ہے. ایمان بے نور ہو جاتا ہے. یہ گناہ کا پہلا نقصان ہے. یہ نہ سمجھو کہ کوئی نہیں دیکھ رہا، میرا کچھ نہیں بگڑا. اے نادان تو غافل ہے، تیرا سب کچھ بگڑ گیا، تجھے خبر بھی نہیں ہے. تیرا سب کچھ لٹ گیا.

واۓ ناکامی! متاع کارواں جاتا رہا 
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

تیری ذات لٹ چکی، ڈاکو ڈاکہ کر کے گۓ، تیرا سب کچھ لٹ گیا، توپھر بھی کہ رہا ہے کہ تیرا کچھ نہیں بگڑا، تیرا سب کچھ بگڑ چکا ہے، تو اندر سے اندھا ہو چکا  ہے. تیرا دل تو مردہ ہو چکا ہے. 

گناہ کا پہلا نقصان یہ ہے کہ دل بے نور ہو جاتا ہے، ایمان کمزور ہو جاتا ہے اور جب ایمان کمزور ہو جاتا ہے تو خدا کے ہونے کا یقین نہیں رہتا اور جب خدا کے ہونے کا یقین نہیں رہتا تو انسان اندھیروں میں بھٹکتا  ہے. انسان شیطان کے رحم و پر ہوتا ہے، نفس اور شیطان اس کو جس طرف چاہیں لے جاتے ہیں، یہ کچھ بھی نہیں کر سکتا.  

٢. گناہ کا دوسرا نقصان:

دوسرا نقصان اس کے جسم کا ہے. اسکا جسم اجڑ جاتا ہے، تکلیفوں میں آ جاتا ہے، مصیبتوں میں آ جاتا ہے، سکون برباد ہو جاتا ہے، ایئر کنڈیشنڈ کمرے میں بھی سکون نہیں. کھانے کے لیے ساری غذائیں ہیں مگر کھا نہیں  سکتا،ڈاکٹر نے منع کیا ہوا ہے. سارے وسائل مہیا ہیں مگر استعمال نہیں کر سکتا، مخبوطالحواس ہو گیا ہے، کینسر ہو گیا، جگر کو کوئی تکلیف ہوگئی اور یہ سمجھتا نہیں کہ یہ کس وجہ سے ہیں. طرح طرح کی مصیبتوں میں گھرا رہتا ہے. یہ ساری شامت برے اعمال ہی کی وجہ سے ہے. یہ گناہ ہی کی وجہ سے ہے. یہ اتنا نادان ہے کہ یہ سوچتا ہے کہ یہ سب دوسروں کی وجہ سے ہے. یہ دور ایسا آ گیا ہے کہ کوئی بھی اپنی خامی کی طرف نہیں دیکھنا چاہتا، کوئی بھی اپنی خامیوں کی نشاندہی نہیں چاہتا، کوئی بھی اپنے آپ کو غلط نہیں سمجھتا حالانکہ غلط ہوتا ہے. کوئی بھی اپنے آپ کو گنہگار نہیں کہتا حالانکہ گنہگار ہوتا ہے، بہکا ہوا ہوتا ہے. المیہ یہ ہے کہ بہکے ہوۓ کہہ رہے ہیں کہ ہم نور ایمان سے مالا مال ہیں، حالانکہ انکے اعمال و اجسام تباہ ہو جاتے ہیں.

٣. گناہ کا تیسرا نقصان:

تیسرا نقصان گنہگار کی معشیت تباہ ہو جاتی ہے. آنحضرت ﷺ نے فرمایا انسان کے گناہ کی وجہ سے رزق کی بندش ہو جاتی ہے. سوال یہ ہے کہ جو ہمارا نصیب ہے وہ تو پھر بھی  ملے گا. ہاں ملے گا مگر ذلت سے، بے سکونی سے، پریشان ہو کر ملے گا. اگر تو نیک ہے، با عمل ہے و با کردار ہے تو وہی رزق تجھے سکون سے ملے گا. گنہگار کو اسکا نصیب تو ملے گا مگر اس میں برکت اٹھا لی جاتی ہے. بیوی فالج زدہ ہو جاۓ گی، بیٹی بے حیا ہو جائے گی، خود جوۓ میں پڑ جائے گا، رزق سے برکت اٹھ جائے گی تو پھر بھاگتا پھرے گا دو نمبر پیروں کے پاس، تجھے سکون نہیں ملے گا، تو کہتا پھرے گا کہ دولت تو بہت مگر پتا نہیں کہاں جاتی ہے. اے نادان! تو اسکا خود ذمہ دار ہے. تیرے اعمال ذمہ دار ہیں تو کسی کو اسکا ذمہ دار نہ ٹھہرا. تو خود خدا کی بارگاہ میں مجرم ہے. اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا گناہ کی وجہ سے رزق کی بندش ہو جاتی ہے.


قرآن پاک میں ہے  کہ جب انسان گناہ کرتا ہے کہ الله اسکی معشیت تنگ کر دیتا ہے. اس سے مراد اس کے حالات تنگ کر دئیے جاتے ہیں، اس کے اعمال سے برکت اٹھ جاتی ہے اور اس کے حالات نہ سازگار کر دئیے جاتے ہیں. لوگ عاملوں کے پاس جاتے ہیں اور وہ انکو بتاتے ہیں کہ تیرے رزق کی بندش ساس نے کرا دی ہے، تمھارے رشتہ داروں  نے کروا دی ہے، وہ عامل جھوٹ بول رہا ہے. کیونکہ وہ تمھارے گناہ کی نشاندہی نہیں کر رہا بلکہ کسی اور پر بہتان ڈال رہا ہے. وہ تمہیں اور تباہ کر رہا ہے اور تمھارے گناہوں میں اضافہ کر رہا ہے. لہٰذا کوئی اسکی بندش نہیں کھول  سکتا، کسی پیر کا تعویذ کوئی کام نہیں کرے  گا اور نہ ہی کسی عامل کا چلّہ کام آئے گا. اس کی بندش کی پہلی گرہ انسان خود کھولے گا جب وہ اپنے گناہوں سے توبہ کر لے گا اور  محاسبہ کر لے گا. خلوت میں بیٹھ کے دیکھو،  سوچو، تمھارے اندرایمان اور دل دو مفتی بیٹھے ہیں جو بہترین فتویٰ دے سکتے ہیں. اپنے اعمال کو سامنے رکھ کر اپنا محاسبہ کریں، ایک لسٹ بنائیں کہ کہاں کہاں نا فرمانیاں ہو رہی ہیں، کس کا حق چھینا ہے، اس لسٹ کو سامنے رکھیں اور خدا کی بارگاہ میں گڑگڑا کر معافی  مانگیں، اس طرح رزق کی بندش ختم ہوگی یعنی حالات سازگار ہو جائیں  گے.آسمان تمھارے لیے بارش برسائے گا، زمین سبزہ اگلے  گی، پردہ غیب سے رزق میں برکت ڈال دی جائے گی تو تم حیران رہ جاؤ گے. تمھارے لیے سارے راستے کھول دئیے جائیں گے. سارے انعامات نچھاور کر دیئے جائیں گے.

اس وقت سارے اعمال کے ذمہ دار آپ خود ہیں، تم اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے پیروں کے پاس یہ کہتے ہو کہ پتہ نہیں پیسہ کہاں جاتا ہے، سمجھ نہیں آتا سونے کو ہاتھ  لگاتا  ہوں تو مٹی ہو جاتا ہے. کسی نے کچھ کیا تو نہیں ہوا؟ کسی نے کچھ نہیں کیا، تم خود گناہوں میں مبتلا ہو. کیونکہ آپ ﷺ  نے فرمایا ہے کہ جو گناہ کرتا ہے، اس کے رزق میں بندش کر دی جاتی ہے.  اسلئے اپنے اندر دیکھو، باہر نہ دیکھو. اپنے گناہوں سے چشم پوشی اختیار کر کے دوسروں کو کو ذمہ دار ٹھہرانا گناہوں میں ایک اور گناہ کا اضافہ ہے.

گناہ کے یہ تین نقصانات ہیں. ایمان کمزور ہو جاتا ہے، بے نور ہو جاتا ہے، بے روح ہو جاتا ہے،  سے نیکی کی قوت کمزور ہو جاتی ہے اور نفس مضبوط ہوتا جائے گا. نفس جتنا مظبوط ہوتا جائے گا اور زیادہ گناہ کرتے جاؤ گے. خدا اور اسکے رسول ﷺ اتنا زیادہ ناراض ہوتے جائیں گے اور انسان اتنا ہی مصیبتوں میں پھنستا جائے گا. دوسرا نقصان یہ ہے کہ جسم بے سکونی میں مبتلا ہو جائے گا. تیسرا یہ کہ معشیت تنگ ہو جائے گی. جب شیطان ذہن اور قلب پر قابض ہو جائے تو پھر فیصلے بھی انسان غلط کرتا ہے اور انکی وجہ سے معشیت تنگ ہو جے گی.

٤. گناہ کاچوتھا نقصان:


گناہ کا چوتھا نقصان یہ ہے کہ آخرت تباہ ہو جاتی ہے. گناہ کا اختتام جہنم ہوتا ہے، چاہے سود خور ہو، شرابی ہو، زانی ہو، والدین کا نافرمان ہو، شرک کرنے والا ہو، جادو ٹونہ کرنے والا ہو. یہ گناہ کبیرہ ہیں اور گناہ تاریکی ہے. یہ تاریکی جہنم کی طرف لے جاتی ہے جو سب سے بڑی تاریکی ہے. گناہ کے نتیجے میں انسان نزع کے وقت پریشان ہوتا ہے، قبر تاریک ہو جاتی ہے. میدان محشر میں ذلت سے گزرنا پڑے گا اور بلآخر انسان سب سے بڑی ذلت گاہ جہنم میں چلا جائے گا. 

گناہ کا علاج:   


ایمان کو مضبوط کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ گناہوں  سے بچا جائے اور گناہوں سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ نیکیاں کی جائیں. وجود کوذکر الہی میں مصروف رکھا جائے رکھا جائے. شب و روز حضور ﷺ کے کردار کو سامنے رکھا جائے. جو کام کرنے  لگو تو سوچو پیغمبر رحمت ﷺ نے اس کام میں کیا طرز عمل اختیار کیا. اگر بزنس کر رہے  ہو تو دیکھو حضور ﷺ  نے کیسے کیا، اگر شوہر ہو تو دیکھو حضور ﷺ  کیسے شوہر تھے، بیویوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا، ویسا  بیوی کے ساتھ کرو. دیکھو آپ ﷺ  کیسے والد تھے، اپنی بیٹیوں اور نواسوں کو کیا عزت دیتے تھے، آپ بھی ایسا ہی  کریں. یہ دیکھو آپ ﷺ  کا رشتہ داروں، پڑوسیوں اور دوستوں کے ساتھ کیسا برتاؤ تھا. حضور ﷺ  ایک رول ماڈل  ہیں.

اس ماڈل کو  پڑھیں، study کریں، ہم کیا  کرتے ہیں؟ ہم وقت ضائع کرتے ہیں. ٹی وی  دیکھنے میں، کھیلنے میں، گپ شپ کرنے میں. کبھی سوچا کہ اس ماڈل کو پڑھیں اور اس کے آئینے میں اپنے آپ کو درست کریں. اپنے کردار کو اس کردار میں ڈھالیں جہاں بلندی ہی بلندی ہے، عزت ہی عزت ہے، معراج ہی معراج ہے، شان ہی شان ہے، مقام ہی مقام ہے. وما علينا إلا البلاغ المبين.


یہ بھی پڑھیں: رب کائنات کی معرفت کے حصول اور گناہ سے بچنے میں میں شیخ کامل کا کردار




How sins affect life
How sins affect life


Keywords: 
Allah, Prophet Muhammad PBUH, Islam, Sufism in Islam, Spiritual, Faith, Effects of Sins 

قصیدہ بردہ شریف اردو اور عربی

0 comments

Roza Rasool (PBUH)

ابھی جبرائیل (علیہ اسلام) بھی اترے نہ تھے کعبے کے ممبر سے 
کہ اتنے میں صدا آئی ہے عبدالله (علیہ اسلام) کے گھر سے  

مبارک ہو شاہ ہر دو سرہ تشریف لے آئے 
مبارک ہو محمّد مصطفیٰ  (محمدﷺ) تشریف لے آئے




یہ بھی دیکھیں : تلاوت قرآن مجید اور اردو ترجمہ 


Keywords
Prophet Muhammd (PBUH), Naat, best naat, beautiful naat, Qasida Burda Shareef, Qaseeda Burda Shareef in urdu, Video Naat,

سورة الفاتحة اور سورة الفجر

0 comments

Surah Fajar urdu translation


تلاوت سورة الفاتحة سورة الفجر 



شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ِ

 فجر کی قسم (۱)
 اور دس راتوں کی (۲)
 اور جفت اور طاق کی (۳)
 اور رات کی جب جانے لگے (۴)
 اور بے شک یہ چیزیں عقلمندوں کے نزدیک قسم کھانے کے لائق ہیں کہ (کافروں کو ضرور عذاب ہو گا) (۵)
 کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے پروردگار نے عاد کے ساتھ کیا کیا (۶)
 (جو) ارم (کہلاتے تھے اتنے) دراز قد (۷)
 کہ تمام ملک میں ایسے پیدا نہیں ہوئے تھے (۸)
 اور ثمود کے ساتھ (کیا کیا) جو وادئِ (قریٰ) میں پتھر تراشتے تھے (اور گھر بناتے) تھے (۹)
 اور فرعون کے ساتھ (کیا کیا) جو خیمے اور میخیں رکھتا تھا (۱۰)
 یہ لوگ ملکوں میں سرکش ہو رہے تھے (۱۱)
 اور ان میں بہت سی خرابیاں کرتے تھے (۱۲)
 تو تمہارے پروردگار نے ان پر عذاب کا کوڑا نازل کیا (۱۳)
 بے شک تمہارا پروردگار تاک میں ہے (۱۴)
 مگر انسان (عجیب مخلوق ہے کہ) جب اس کا پروردگار اس کو آزماتا ہے تو اسے عزت دیتا اور نعمت بخشتا ہے۔ تو کہتا ہے کہ (آہا) میرے پروردگار نے مجھے عزت بخشی (۱۵)
 اور جب (دوسری طرح) آزماتا ہے کہ اس پر روزی تنگ کر دیتا ہے تو کہتا ہے کہ (ہائے) میرے پروردگار نے مجھے ذلیل کیا (۱۶)
 نہیں بلکہ تم لوگ یتیم کی خاطر نہیں کرتے (۱۷)
 اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتے ہو (۱۸)
 اور میراث کے مال سمیٹ کر کھا جاتے ہو (۱۹) اور مال کو بہت ہی عزیز رکھتے ہو (۲۰)
 تو جب زمین کی بلندی کوٹ کوٹ کو پست کر دی جائے گی (۲۱)
 اور تمہارا پروردگار (جلوہ فرما ہو گا) اور فرشتے قطار باندھ باندھ کر آ موجود ہوں گے (۲۲)
 اور دوزخ اس دن حاضر کی جائے گی تو انسان اس دن متنبہ ہو گا مگر تنبہ (سے) اسے (فائدہ) کہاں (مل سکے گا) (۲۳) کہے گا کاش میں نے اپنی زندگی (جاودانی کے لیے) کچھ آگے بھیجا ہوتا (۲۴)
 تو اس دن نہ کوئی خدا کے عذاب کی طرح کا (کسی کو) عذاب دے گا (۲۵)
 اور نہ کوئی ویسا جکڑنا جکڑے گا (۲۶)
 اے اطمینان پانے والی روح! (۲۷)
 اپنے پروردگار کی طرف لوٹ چل۔ تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی (۲۸)
 تو میرے (ممتاز) بندوں میں شامل ہو جا (۲۹)
 اور میری بہشت میں داخل ہو جا (۳۰)
یہ بھی دیکھیں: نعت رسول مقبول ﷺ

Keywords 
Sufism, tasawuf, teachings of islam, nafs e mutmaina, tasawur e sheikh, mystisim, tasawuf in islam, sufism in islam, Surah Fatiha, Surah Fajar, great sufis, sufism in pakistan, willayat,