لیکچر: شیخ المشائخ حضرت صوفی محمّد افضل نقشبندی
ایمان کیا ہے؟
اقرار بللسان و تصدیق با قلب. نہ صرف زبان سے اقرار کرنا بلکہ دل کی گہرائیوں سے ان چیزوں ماننا، نہ صرف ماننا بلکہ ان کو سامنے رکھ کراپنے اعمال کواستوار کرنا. مثلاً الله تعالیٰ پر ایمان لانا. کیا ایمان لانا؟ یہ کہ اس کا کوئی شریک نہیں، وہی عبادت کے لائق ہے، وہ مجھے دیکھ رہا ہے، وہ میری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے اور میری حرکات و سکنات اس کے رو برو ہیں. آپ اندازہ کریں کہ کوئی آپ کو دیکھ رہا ہو، کوئی شخص لمحہ بہ لمحہ آپکی حرکات و سکنات کو ریکارڈ کر رہا ہواور پھر باز پرس بھی ہونی ہو تو کیا آپ کوئی غلط کام کریں گے؟ نہیں کریں گے.
![]() |
Sufi Muhammad Afzal |
ہمارا رب ہمیں دیکھ رہا ہے، لمحہ بہ لمحہ کی رپورٹنگ ہو رہی ہے اور سب حق تعالیٰ کے Eye Radar میں ہیں، خلوت میں ہوں یا جلوت میں، گھر میں ہوں یا بیت الخلاء میں، محفل میں ہوں یا تنہائی میں، وہ ہمارے ظاہری اعمال بھی دیکھ رہا ہے اور جو کچھ ہمارے قلب کے اندر کیفیات گزر رہی ہیں اور ذہن کے اندر خیالات آ رہے ہیں اس کو تصرف بھی ہے. اور یہ سب کچھ ریکارڈ بھی ہو رہا ہے اور کتنا بڑا المیہ ہے کہ ہم پرواہ نہیں کر رہے. غیبت کر رہے ہیں، زبان سے دل آزاری کر رہے ہیں، کاروبار میں ہیرا پھیری کر رہے ہیں. اپنے دوستوں، رشتہ داروں کو دھوکہ دہ رہے ہیں. ہم ظاہری طور پر کچھ اور کرتے ہیں اور باطنی طور پر کچھ اور. ہم اپنے آپ کو بہت ہوشیار اور چالاک سمجھ رہے ہیں. کس کے آگے؟ جو ہمارے اعمال دیکھ بھی رہا ہے ریکارڈ بھی کر رہا ہے. ہماری ہر حالت کا حساب ہو رہا ہے.
آخرت پر ایمان کیا ہے؟
دل کی گہرائیوں سے ماننا کہ قیامت آئے گی، میری accountability ہو گی، یہ accountability دنیا میں تو ہو رہی ہے، مرنے کے بعد بھی ہوگی، قبر سے سٹارٹ ہو جاۓ گی، نزع کے وقت سے اسٹارٹ ہو جاۓ گی. وہ شخص کہ جس کو اپنی بنیادی زندگی آخرت کو سامنے رکھ کر بسر کرنی چاہئیے تھی، اسکو پرواہ ہی نہیں، آخرت کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہی، تباہی مچائی جا رہی ہے بے خوفی سے، نڈر پن سے، آخرت کی جوابدہی کا ہم اقرار تو کرتے ہیں لیکن practically مظاہرہ نہیں کرتے اگر آخرت کو سامنے رکھ کر عملی زندگی کا مظاہرہ کرتے ہوتے تو اپنی زندگی کو درست کیا ہوتا. یہاں بھی ہم جھوٹ بولتے ہیں.
ایمان اور یقین جب مومن کے اندر develop ہو جاتے ہیں تو سارے اعمال درست ہو جاتے ہیں. خوف خدا ہوتا ہے، ڈر ہوتا ہے، اپنے رب کے حضور مومن اپنے آپ کو حاضر سمجھتا ہے. اپنے آپ کو رب کے سامنے جوابدہ سمجھتا ہے. چشم رسالت مآب ﷺ کے سامنے شرمندگی سے بچنا چاہتا ہے. لیکن ہم ایسا نہیں کر رہے. ہم کہتے تو ہیں کہ الله ہر جگہ موجود ہے، لیکن practically ہم اسکی نفی کرتے ہیں. یہاں سے ہمارا جھوٹ اسٹارٹ ہو جاتا ہے.
ایمان اور یقین جب مومن کے اندر develop ہو جاتے ہیں تو سارے اعمال درست ہو جاتے ہیں. خوف خدا ہوتا ہے، ڈر ہوتا ہے، اپنے رب کے حضور مومن اپنے آپ کو حاضر سمجھتا ہے. اپنے آپ کو رب کے سامنے جوابدہ سمجھتا ہے. چشم رسالت مآب ﷺ کے سامنے شرمندگی سے بچنا چاہتا ہے. لیکن ہم ایسا نہیں کر رہے. ہم کہتے تو ہیں کہ الله ہر جگہ موجود ہے، لیکن practically ہم اسکی نفی کرتے ہیں. یہاں سے ہمارا جھوٹ اسٹارٹ ہو جاتا ہے.
گناہ کیا ہے؟
الله تعالیٰ اور اسکے رسول ﷺ کی نافرمانی، آپ ﷺ کی سنت کی خلاف ورزی، حق تعالیٰ نے جن چیزوں سے منع کیا ہے وہ کر رہے ہیں اور جن چیزوں کو کرنے کے لیے کہا ہے اسکو نہیں کر رہے، اسکو گناہ کہتے ہیں.
یہ نہ سمجھو کہ کوئی نقصان نہیں ہو رہا، یہ نقصانات ہی تو ہیں کہ دل بنجر ہیں، ذھن اجڑے ہوۓ ہیں، جسم تباہ ہو چکے ہیں، یہ چلتی پھرتی لاشیں ہیں، یہ حیوان ہیں، نام کا اسلام ہے، کام کافرانہ ہیں، خیالات کافرانہ ہیں. یہ براۓ نام مسلمان ہیں، براۓ نام اسلام کے دعوے دار ہیں.گناہ کے نقصانات کی کیا ہیں؟
"گناہ کے نقصانات"
گناہ کے چار نقصانات ہیں:١. گناہ کا پہلا نقصان:
گناہ کا پہلا نقصان کیا ہے؟ یہ تو میں نے بتایا کہ گناہ الله تعالیٰ اور رسالت مآب ﷺ کے احکامات کی خلاف ورزی ہے. جب ہم نافرمانی کرتے ہیں اپنے افسر کی، اپنے والدین کی ، تو اس سے کیا ہوتا ہے؟ کیا وہ خوش ہوتے ہیں؟ نہیں وہ ناراض ہوتے ہیں. اگر آپ کا کوئی ماتحت آپ کی نہ فرمانی کرے تو کیا آپ اس سے خوش ہونگے یا اس سے ناراض ہونگے؟ یقیناً آپ اس سے ناراض ہونگے. جب انعامات دینے کا وقت آئے گا تو سارے انعامات اور میڈلز اسکو دیں گے جو آپ کا فرمانبردار ہوگا. جسے زہر جسم کو تباہ کر دیتا ہے، جگر تباہ ہو جاتا ہے، خون کے ذریعے دل پرزہر کا اٹیک ہوتا ہے اور انسان کی موت واقعہ ہو جاتی ہے. اسی طرح جب انسان گناہ کرتا ہے تو اسکا زہر (روحانی) دل پر اٹیک کرتا ہے. اسکی روحانیت تباہ ہو جاتی ہے. ایمان بے نور ہو جاتا ہے. یہ گناہ کا پہلا نقصان ہے. یہ نہ سمجھو کہ کوئی نہیں دیکھ رہا، میرا کچھ نہیں بگڑا. اے نادان تو غافل ہے، تیرا سب کچھ بگڑ گیا، تجھے خبر بھی نہیں ہے. تیرا سب کچھ لٹ گیا.
واۓ ناکامی! متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
تیری ذات لٹ چکی، ڈاکو ڈاکہ کر کے گۓ، تیرا سب کچھ لٹ گیا، توپھر بھی کہ رہا ہے کہ تیرا کچھ نہیں بگڑا، تیرا سب کچھ بگڑ چکا ہے، تو اندر سے اندھا ہو چکا ہے. تیرا دل تو مردہ ہو چکا ہے.
گناہ کا پہلا نقصان یہ ہے کہ دل بے نور ہو جاتا ہے، ایمان کمزور ہو جاتا ہے اور جب ایمان کمزور ہو جاتا ہے تو خدا کے ہونے کا یقین نہیں رہتا اور جب خدا کے ہونے کا یقین نہیں رہتا تو انسان اندھیروں میں بھٹکتا ہے. انسان شیطان کے رحم و پر ہوتا ہے، نفس اور شیطان اس کو جس طرف چاہیں لے جاتے ہیں، یہ کچھ بھی نہیں کر سکتا.
٢. گناہ کا دوسرا نقصان:
دوسرا نقصان اس کے جسم کا ہے. اسکا جسم اجڑ جاتا ہے، تکلیفوں میں آ جاتا ہے، مصیبتوں میں آ جاتا ہے، سکون برباد ہو جاتا ہے، ایئر کنڈیشنڈ کمرے میں بھی سکون نہیں. کھانے کے لیے ساری غذائیں ہیں مگر کھا نہیں سکتا،ڈاکٹر نے منع کیا ہوا ہے. سارے وسائل مہیا ہیں مگر استعمال نہیں کر سکتا، مخبوطالحواس ہو گیا ہے، کینسر ہو گیا، جگر کو کوئی تکلیف ہوگئی اور یہ سمجھتا نہیں کہ یہ کس وجہ سے ہیں. طرح طرح کی مصیبتوں میں گھرا رہتا ہے. یہ ساری شامت برے اعمال ہی کی وجہ سے ہے. یہ گناہ ہی کی وجہ سے ہے. یہ اتنا نادان ہے کہ یہ سوچتا ہے کہ یہ سب دوسروں کی وجہ سے ہے. یہ دور ایسا آ گیا ہے کہ کوئی بھی اپنی خامی کی طرف نہیں دیکھنا چاہتا، کوئی بھی اپنی خامیوں کی نشاندہی نہیں چاہتا، کوئی بھی اپنے آپ کو غلط نہیں سمجھتا حالانکہ غلط ہوتا ہے. کوئی بھی اپنے آپ کو گنہگار نہیں کہتا حالانکہ گنہگار ہوتا ہے، بہکا ہوا ہوتا ہے. المیہ یہ ہے کہ بہکے ہوۓ کہہ رہے ہیں کہ ہم نور ایمان سے مالا مال ہیں، حالانکہ انکے اعمال و اجسام تباہ ہو جاتے ہیں.
٣. گناہ کا تیسرا نقصان:
تیسرا نقصان گنہگار کی معشیت تباہ ہو جاتی ہے. آنحضرت ﷺ نے فرمایا انسان کے گناہ کی وجہ سے رزق کی بندش ہو جاتی ہے. سوال یہ ہے کہ جو ہمارا نصیب ہے وہ تو پھر بھی ملے گا. ہاں ملے گا مگر ذلت سے، بے سکونی سے، پریشان ہو کر ملے گا. اگر تو نیک ہے، با عمل ہے و با کردار ہے تو وہی رزق تجھے سکون سے ملے گا. گنہگار کو اسکا نصیب تو ملے گا مگر اس میں برکت اٹھا لی جاتی ہے. بیوی فالج زدہ ہو جاۓ گی، بیٹی بے حیا ہو جائے گی، خود جوۓ میں پڑ جائے گا، رزق سے برکت اٹھ جائے گی تو پھر بھاگتا پھرے گا دو نمبر پیروں کے پاس، تجھے سکون نہیں ملے گا، تو کہتا پھرے گا کہ دولت تو بہت مگر پتا نہیں کہاں جاتی ہے. اے نادان! تو اسکا خود ذمہ دار ہے. تیرے اعمال ذمہ دار ہیں تو کسی کو اسکا ذمہ دار نہ ٹھہرا. تو خود خدا کی بارگاہ میں مجرم ہے. اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا گناہ کی وجہ سے رزق کی بندش ہو جاتی ہے.
قرآن پاک میں ہے کہ جب انسان گناہ کرتا ہے کہ الله اسکی معشیت تنگ کر دیتا ہے. اس سے مراد اس کے حالات تنگ کر دئیے جاتے ہیں، اس کے اعمال سے برکت اٹھ جاتی ہے اور اس کے حالات نہ سازگار کر دئیے جاتے ہیں. لوگ عاملوں کے پاس جاتے ہیں اور وہ انکو بتاتے ہیں کہ تیرے رزق کی بندش ساس نے کرا دی ہے، تمھارے رشتہ داروں نے کروا دی ہے، وہ عامل جھوٹ بول رہا ہے. کیونکہ وہ تمھارے گناہ کی نشاندہی نہیں کر رہا بلکہ کسی اور پر بہتان ڈال رہا ہے. وہ تمہیں اور تباہ کر رہا ہے اور تمھارے گناہوں میں اضافہ کر رہا ہے. لہٰذا کوئی اسکی بندش نہیں کھول سکتا، کسی پیر کا تعویذ کوئی کام نہیں کرے گا اور نہ ہی کسی عامل کا چلّہ کام آئے گا. اس کی بندش کی پہلی گرہ انسان خود کھولے گا جب وہ اپنے گناہوں سے توبہ کر لے گا اور محاسبہ کر لے گا. خلوت میں بیٹھ کے دیکھو، سوچو، تمھارے اندرایمان اور دل دو مفتی بیٹھے ہیں جو بہترین فتویٰ دے سکتے ہیں. اپنے اعمال کو سامنے رکھ کر اپنا محاسبہ کریں، ایک لسٹ بنائیں کہ کہاں کہاں نا فرمانیاں ہو رہی ہیں، کس کا حق چھینا ہے، اس لسٹ کو سامنے رکھیں اور خدا کی بارگاہ میں گڑگڑا کر معافی مانگیں، اس طرح رزق کی بندش ختم ہوگی یعنی حالات سازگار ہو جائیں گے.آسمان تمھارے لیے بارش برسائے گا، زمین سبزہ اگلے گی، پردہ غیب سے رزق میں برکت ڈال دی جائے گی تو تم حیران رہ جاؤ گے. تمھارے لیے سارے راستے کھول دئیے جائیں گے. سارے انعامات نچھاور کر دیئے جائیں گے.
اس وقت سارے اعمال کے ذمہ دار آپ خود ہیں، تم اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے پیروں کے پاس یہ کہتے ہو کہ پتہ نہیں پیسہ کہاں جاتا ہے، سمجھ نہیں آتا سونے کو ہاتھ لگاتا ہوں تو مٹی ہو جاتا ہے. کسی نے کچھ کیا تو نہیں ہوا؟ کسی نے کچھ نہیں کیا، تم خود گناہوں میں مبتلا ہو. کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو گناہ کرتا ہے، اس کے رزق میں بندش کر دی جاتی ہے. اسلئے اپنے اندر دیکھو، باہر نہ دیکھو. اپنے گناہوں سے چشم پوشی اختیار کر کے دوسروں کو کو ذمہ دار ٹھہرانا گناہوں میں ایک اور گناہ کا اضافہ ہے.
گناہ کے یہ تین نقصانات ہیں. ایمان کمزور ہو جاتا ہے، بے نور ہو جاتا ہے، بے روح ہو جاتا ہے، سے نیکی کی قوت کمزور ہو جاتی ہے اور نفس مضبوط ہوتا جائے گا. نفس جتنا مظبوط ہوتا جائے گا اور زیادہ گناہ کرتے جاؤ گے. خدا اور اسکے رسول ﷺ اتنا زیادہ ناراض ہوتے جائیں گے اور انسان اتنا ہی مصیبتوں میں پھنستا جائے گا. دوسرا نقصان یہ ہے کہ جسم بے سکونی میں مبتلا ہو جائے گا. تیسرا یہ کہ معشیت تنگ ہو جائے گی. جب شیطان ذہن اور قلب پر قابض ہو جائے تو پھر فیصلے بھی انسان غلط کرتا ہے اور انکی وجہ سے معشیت تنگ ہو جے گی.
ایمان کو مضبوط کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ گناہوں سے بچا جائے اور گناہوں سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ نیکیاں کی جائیں. وجود کوذکر الہی میں مصروف رکھا جائے رکھا جائے. شب و روز حضور ﷺ کے کردار کو سامنے رکھا جائے. جو کام کرنے لگو تو سوچو پیغمبر رحمت ﷺ نے اس کام میں کیا طرز عمل اختیار کیا. اگر بزنس کر رہے ہو تو دیکھو حضور ﷺ نے کیسے کیا، اگر شوہر ہو تو دیکھو حضور ﷺ کیسے شوہر تھے، بیویوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا، ویسا بیوی کے ساتھ کرو. دیکھو آپ ﷺ کیسے والد تھے، اپنی بیٹیوں اور نواسوں کو کیا عزت دیتے تھے، آپ بھی ایسا ہی کریں. یہ دیکھو آپ ﷺ کا رشتہ داروں، پڑوسیوں اور دوستوں کے ساتھ کیسا برتاؤ تھا. حضور ﷺ ایک رول ماڈل ہیں.
اس ماڈل کو پڑھیں، study کریں، ہم کیا کرتے ہیں؟ ہم وقت ضائع کرتے ہیں. ٹی وی دیکھنے میں، کھیلنے میں، گپ شپ کرنے میں. کبھی سوچا کہ اس ماڈل کو پڑھیں اور اس کے آئینے میں اپنے آپ کو درست کریں. اپنے کردار کو اس کردار میں ڈھالیں جہاں بلندی ہی بلندی ہے، عزت ہی عزت ہے، معراج ہی معراج ہے، شان ہی شان ہے، مقام ہی مقام ہے. وما علينا إلا البلاغ المبين.
یہ بھی پڑھیں: رب کائنات کی معرفت کے حصول اور گناہ سے بچنے میں میں شیخ کامل کا کردار
Keywords: Allah, Prophet Muhammad PBUH, Islam, Sufism in Islam, Spiritual, Faith, Effects of Sins
قرآن پاک میں ہے کہ جب انسان گناہ کرتا ہے کہ الله اسکی معشیت تنگ کر دیتا ہے. اس سے مراد اس کے حالات تنگ کر دئیے جاتے ہیں، اس کے اعمال سے برکت اٹھ جاتی ہے اور اس کے حالات نہ سازگار کر دئیے جاتے ہیں. لوگ عاملوں کے پاس جاتے ہیں اور وہ انکو بتاتے ہیں کہ تیرے رزق کی بندش ساس نے کرا دی ہے، تمھارے رشتہ داروں نے کروا دی ہے، وہ عامل جھوٹ بول رہا ہے. کیونکہ وہ تمھارے گناہ کی نشاندہی نہیں کر رہا بلکہ کسی اور پر بہتان ڈال رہا ہے. وہ تمہیں اور تباہ کر رہا ہے اور تمھارے گناہوں میں اضافہ کر رہا ہے. لہٰذا کوئی اسکی بندش نہیں کھول سکتا، کسی پیر کا تعویذ کوئی کام نہیں کرے گا اور نہ ہی کسی عامل کا چلّہ کام آئے گا. اس کی بندش کی پہلی گرہ انسان خود کھولے گا جب وہ اپنے گناہوں سے توبہ کر لے گا اور محاسبہ کر لے گا. خلوت میں بیٹھ کے دیکھو، سوچو، تمھارے اندرایمان اور دل دو مفتی بیٹھے ہیں جو بہترین فتویٰ دے سکتے ہیں. اپنے اعمال کو سامنے رکھ کر اپنا محاسبہ کریں، ایک لسٹ بنائیں کہ کہاں کہاں نا فرمانیاں ہو رہی ہیں، کس کا حق چھینا ہے، اس لسٹ کو سامنے رکھیں اور خدا کی بارگاہ میں گڑگڑا کر معافی مانگیں، اس طرح رزق کی بندش ختم ہوگی یعنی حالات سازگار ہو جائیں گے.آسمان تمھارے لیے بارش برسائے گا، زمین سبزہ اگلے گی، پردہ غیب سے رزق میں برکت ڈال دی جائے گی تو تم حیران رہ جاؤ گے. تمھارے لیے سارے راستے کھول دئیے جائیں گے. سارے انعامات نچھاور کر دیئے جائیں گے.
اس وقت سارے اعمال کے ذمہ دار آپ خود ہیں، تم اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے پیروں کے پاس یہ کہتے ہو کہ پتہ نہیں پیسہ کہاں جاتا ہے، سمجھ نہیں آتا سونے کو ہاتھ لگاتا ہوں تو مٹی ہو جاتا ہے. کسی نے کچھ کیا تو نہیں ہوا؟ کسی نے کچھ نہیں کیا، تم خود گناہوں میں مبتلا ہو. کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو گناہ کرتا ہے، اس کے رزق میں بندش کر دی جاتی ہے. اسلئے اپنے اندر دیکھو، باہر نہ دیکھو. اپنے گناہوں سے چشم پوشی اختیار کر کے دوسروں کو کو ذمہ دار ٹھہرانا گناہوں میں ایک اور گناہ کا اضافہ ہے.
گناہ کے یہ تین نقصانات ہیں. ایمان کمزور ہو جاتا ہے، بے نور ہو جاتا ہے، بے روح ہو جاتا ہے، سے نیکی کی قوت کمزور ہو جاتی ہے اور نفس مضبوط ہوتا جائے گا. نفس جتنا مظبوط ہوتا جائے گا اور زیادہ گناہ کرتے جاؤ گے. خدا اور اسکے رسول ﷺ اتنا زیادہ ناراض ہوتے جائیں گے اور انسان اتنا ہی مصیبتوں میں پھنستا جائے گا. دوسرا نقصان یہ ہے کہ جسم بے سکونی میں مبتلا ہو جائے گا. تیسرا یہ کہ معشیت تنگ ہو جائے گی. جب شیطان ذہن اور قلب پر قابض ہو جائے تو پھر فیصلے بھی انسان غلط کرتا ہے اور انکی وجہ سے معشیت تنگ ہو جے گی.
٤. گناہ کاچوتھا نقصان:
گناہ کا چوتھا نقصان یہ ہے کہ آخرت تباہ ہو جاتی ہے. گناہ کا اختتام جہنم ہوتا ہے، چاہے سود خور ہو، شرابی ہو، زانی ہو، والدین کا نافرمان ہو، شرک کرنے والا ہو، جادو ٹونہ کرنے والا ہو. یہ گناہ کبیرہ ہیں اور گناہ تاریکی ہے. یہ تاریکی جہنم کی طرف لے جاتی ہے جو سب سے بڑی تاریکی ہے. گناہ کے نتیجے میں انسان نزع کے وقت پریشان ہوتا ہے، قبر تاریک ہو جاتی ہے. میدان محشر میں ذلت سے گزرنا پڑے گا اور بلآخر انسان سب سے بڑی ذلت گاہ جہنم میں چلا جائے گا.
گناہ کا علاج:
ایمان کو مضبوط کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ گناہوں سے بچا جائے اور گناہوں سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ نیکیاں کی جائیں. وجود کوذکر الہی میں مصروف رکھا جائے رکھا جائے. شب و روز حضور ﷺ کے کردار کو سامنے رکھا جائے. جو کام کرنے لگو تو سوچو پیغمبر رحمت ﷺ نے اس کام میں کیا طرز عمل اختیار کیا. اگر بزنس کر رہے ہو تو دیکھو حضور ﷺ نے کیسے کیا، اگر شوہر ہو تو دیکھو حضور ﷺ کیسے شوہر تھے، بیویوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا، ویسا بیوی کے ساتھ کرو. دیکھو آپ ﷺ کیسے والد تھے، اپنی بیٹیوں اور نواسوں کو کیا عزت دیتے تھے، آپ بھی ایسا ہی کریں. یہ دیکھو آپ ﷺ کا رشتہ داروں، پڑوسیوں اور دوستوں کے ساتھ کیسا برتاؤ تھا. حضور ﷺ ایک رول ماڈل ہیں.
اس ماڈل کو پڑھیں، study کریں، ہم کیا کرتے ہیں؟ ہم وقت ضائع کرتے ہیں. ٹی وی دیکھنے میں، کھیلنے میں، گپ شپ کرنے میں. کبھی سوچا کہ اس ماڈل کو پڑھیں اور اس کے آئینے میں اپنے آپ کو درست کریں. اپنے کردار کو اس کردار میں ڈھالیں جہاں بلندی ہی بلندی ہے، عزت ہی عزت ہے، معراج ہی معراج ہے، شان ہی شان ہے، مقام ہی مقام ہے. وما علينا إلا البلاغ المبين.
یہ بھی پڑھیں: رب کائنات کی معرفت کے حصول اور گناہ سے بچنے میں میں شیخ کامل کا کردار
![]() |
How sins affect life |
Keywords: Allah, Prophet Muhammad PBUH, Islam, Sufism in Islam, Spiritual, Faith, Effects of Sins
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔